صاحبان علم

ہفتہ 23 مئی 2020

Javed Ali

جاوید علی

ساری دنیا میں صاحب علم صرف ان لوگوں کو سمجھا جاتا ہے جو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں- اس پر کسی بھی ملک کی شرح تعلیم بتائی جاتی ہے- اس لحاظ سے تو یونیسکو کے مطابق پاکستان میں ستر فیصد شرح تعلیم ہے- تعلیم بلخصوص سائنسی اور ٹیکنیکل کسی بھی ملک کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے- بہت سے ملکوں میں میٹرک تک تعلیم مفت دی جاتی ہے- پاکستان بھی انہی خوش قسمت ممالک میں شامل ہے-
جب ہم بابوں کے ڈیرے پر بیٹھتے ہیں تو وہ اس ڈیٹا کو مانتے وہ اس ڈیٹا کو صاحبان قلم کا ڈیٹا سمجھتے ہیں کیونکہ وہ صاحبان علم کو دو گروپوں میں تقسیم کرتے ہیں صاحبان علم اور صاحبان قلم میں- 
بدقسمتی سے کوئی ان کی اس تقسیم کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا مگر بہت کم- ان کے مطابق پاکستان لائٹریسی ریٹ نوے فیصد سے زیادہ ہے وہ ہر اس شخص کو صاحب علم سمجھتے ہیں جو کوئی نہ کوئی فن جانتا ہے لیکن ہم جو صاحب قلم لوگ ہیں اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں- یہ بابے اپنی بات بڑی دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں ان کے لیے پاکستان کی اکانومی انہی صاحبان علم پر بیس کرتی ہے جو اپنے فن سے اس معیشت کو سہارہ دے رہے ہیں- ان کی یہ بات سو فیصد ٹھیک ہے اگر غور کیا جائے تو- اگر ہماری کار, موٹرسائیکل وغیرہ جس پر ہم سفر کرتے ہیں خراب ہو جائے تو ہم اسے مکینک کے پاس لیں جائیں تو وہ اسے ٹھیک کرے گا اس کے پاس کونسی ماسٹر یا پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے اگر ہم صاحب علم ہیں تو اسے خود کیوں نہیں ٹھیک کر لیتے-
 کار یا موٹر بائیک کا علم اسی کو ہے تب ہی وہ ٹھیک کررہا ہے ہم سے تو یہ ہو نہیں سکتا- ہم صاحب علم جو صاحب قلم ہیں کپاس کے کھیتوں میں چلے جائیں تو روئی ہم نہیں چن سکتے وہ صرف وہ عورتیں چنیں گی جنہیں اس کو چننے کا علم و فن ہے- مرد کی انگلیاں موٹی ہوتی ہیں تو یہ اسے اچھے سے چن نہیں سکتا اور ہم تو اس قابل ہی نہیں کہ روئی کو چن سکیں- دھان جو جون, جولائی میں لگائی جاتی ہے یہ بھی صاحب قلم کے بس کا روگ نہیں- وہ صاحب علم گرم پانی میں دھان کو لگا رہے یا رہی ہوتیں ہیں اور وہ آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف جا بھی رہے ہوتے ہیں اور جو وہ قطار میں پودے لگا رہے ہوتے ہیں ہمارے لیے لگانا تو دور کی بات ہم سوچ بھی نہیں سکتے- ہمارے پاس جو قلم اور کاپی ہے یہ کونسے ماسٹر نے بنائی ہوتی ہے اگر یہ ہی نہ ہو تو ہم کس سے کس پر لکھیں گے اور ہم اس کو بنا بھی نہیں سکتے- 
ہم جس بلڈنگ میں رہتے یا کام کرتے ہیں وہ کسی پی ایچ ڈی ڈاکٹر نے بنائی ہے وہ بھی تو ان پڑھ ہے لیکن صاحب علم ہے- اگر کالج یا یونیورسٹی کے کسی آفس کا دروازہ خراب ہو جائے تو اسے بنانے بڑھئی آئی تو جو وہ ٹرمز استعمال کرتا ہے مجال ہے کہ پرنسپل یا وائس چانسلر کو ان کا پتہ ہو- اب لوہار, معمار اور ترکھان کے علم سے ہم فائدہ نہ لیں تو ہماری ڈگریاں تو بیکار ہیں اگر ہوسپٹل کی بلڈنگ اور اس میں موجود سامان نہ ہو تو اس ڈاکٹر کی ڈگری کس کام کی-
 آدمی جو کوئی بھی کام کرتا ہے وہ صاحب علم ہے اس کے لیے پڑھ لکھا ہونا ضروری نہیں اور صاحب قلم وہ ہے جو پڑھ لکھ سکتا ہے- ہر آدمی اپنے تجربہ کے حساب سے علم رکھتا ہے جس کے پاس اپنا کام میں زیادہ تجربہ ہے اس کی پی ایچ ڈی ڈاکٹریٹ کی حیثیت ہے- ضرورت صرف اس امر کی ہے جو کسی کا مقام ہے نفرت کرنے کی بجائے اسے اس کا مقام دینا چاہیے- جس طرح ہم اپنی عزت چاہتے ہیں اسی طرح اسکی بھی عزت کرنی چاہیے- یہ ہی تو لوگ ہیں جنہوں نے ہماری ساری ذمہ داریاں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے اور ہمارے ملک کی معیشت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے- ہمیں انہیں ہم سٹیٹس سمجھنا چاہیے کیونکہ سرکاری ملازموں کے بعد اوقات سکیل برابر ہوتے ہیں لیکن ان کی تنخواہوں میں بڑا فرق ہوتا ہے یہی فرق یہاں بھی ہے لیکن ہم سمجھ نہیں رہے- ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے, ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہونے دینی چاہیے- ان کے لیے بھی تعلیم بالغاں جیسا کوئی پروگرام شروع ہونا چاہیے تاکہ وہ بھی پڑھ لکھ سکیں صاحب علم تو وہ پہلے ہیں انہیں صاحب قلم بنانے کی ضرورت ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :