انسان کا تکبر اور اوقات

جمعرات 28 مئی 2020

Javed Ali

جاوید علی

انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کائنات میں نائب خدا ہے جو قدرت کے نظام کے علاوہ ہر چیز کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے- اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی کی ہے کہ بعد اوقات اسے دیکھ کر خود بھی حیران و پریشان ہو جاتا ہے- اگر آج سے سو سال پہلے والا انسان واپس آئے اور دیکھے تو یقین نہیں کرے گا کہ یہ وہی دنیا ہے جہاں وہ رہتا تھا وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انسان اس ساری کرہ ارض کو گلابل ولیج بنا دے گا- آج تو ہم گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی کونے سیر کرسکتے ہیں, اس کے بارے ساری معلومات اکٹھی کر سکتے ہیں وہ بھی چند سیکنڈ میں, لوگوں کو گھومتے پھرتے دیکھ سکتے ہیں, موسم کا جائزہ لے سکتے ہیں, گھر بیٹھے دوستوں کی آن لائن محفل جائن کر سکتے ہیں, ان کو اپنا پیغام بھیج سکتے ہیں, ہزاروں سال پہلے انسان کے جسم کا کوئی حصہ مل جائے تو اس کا سارا بائیو ڈیٹا نکال سکتے ہے- اس قسم کے ہتھیار بنا لیے ہیں کہ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ کر اپنے دشمن کو کسی بھی جگہ نشانہ بنا سکتا ہے وہ بھی چند منٹوں اور چند سیکنڈز میں- اس کے یہ ہتھیار پانی, زمین, خلاء ہر طرف سے وار کر سکتے ہیں-
انسان جوں جوں یہ ترقی کرتا جا رہا ہے اپنی اوقات بھولتا جا رہا ہے- دوسرے انسان کو انسان نہیں سمجھتا- اس کرہ ارض پر بسنے والوں کو منٹوں اور سیکنٹوں میں تباہ کرنے کے لیے نت نئے خطرناک سے خطرناک ہتھیار بنا رہا ہے- اپنے سے کمزور کو اپنے پنجے میں جکڑنے کی کوششیں کر رہا ہوتا ہے اور اس کے وسائل کو چھیننے چاہتا ہے- کبھی کسی ملک میں تباہی مچا رہا ہے کبھی کسی میں- کبھی کسی کو دھمکی دے رہا ہے اور کبھی کسی کو-لوکل سطح ہو یا بین الاقوامی یہ تکبر, غرور ہر جگہ نظر آتا ہے وہ گاؤں کا چودھری ہو یا دنیا کا, امیر ہو یا غریب بات ایک ہی ہے- 
انسان جو اتنا اپنے آپ میں مغرور ہے, غرور و تکبر کرتا ہے کہ میں نے فطرت و قدرت کے نظام کو تبدیل کر کے رکھ دیا- بدقسمتی سے انسان ان کارناموں اور دعووں کے باوجود حد سے زیادہ بے بس ہے اپنی پیدا کی ہوئی مصیبت سے بھی جان نہیں چھڑوا سکتا- جب یہ قدرت کے نظام میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قدرت وارننگ کے طور پر اس کے منہ پر ایسا طماچہ مارتی ہے پھر اسے سنبھلتے سنبھلتے بھی کئی برس لگ جاتے ہیں-
 انسان جب قدرت کے افعال میں دخل اندازی کرتا ہے تو پھنستا ہے- ایک بزرگ اپنے مریدوں کو کچھ سیکھانے کی غرض سے جنگل میں لے گئے- انہوں نے گھنے جنگل میں قیام کیا تو وہاں ایک اور بزرگ آئے- پہلے والے بزرگ نے بڑا جھک کر سلام کیا اور بڑے ادب سے آپس میں باتیں کرنے لگے- مریدین کو بڑا تجسس ہوا کہ پوچھنا چاہیے کہ یہ کون بزرگ ہیں جنہیں جھک کر ہمارے پیر نے سلام کیا ہے- ان میں سے ایک پیر کو کسی بہانے سے سائیڈ پر لے گیا اور پوچھا یہ کون ہیں تو انہوں نے کہا یہ وہ شخصیت ہیں جن کو پانی کا کنٹرول دیا گیا ہے (سردار البحر) ہمیں ملنے آئے ہیں- مرید نے کہا ان کی تو بہت خدمت کرنی چاہیے اور ان سے بہت سے اس بارے سوال پوچھنے چاہیے, پیر نے کہا اب ان کے پپ اتر چکے ہیں انہیں خبر نہیں-
 مختصر یہ کہ جب وہ بزرگ جانے لگے انہیں وہ مرید چھوڑنے ساتھ گیا جب وہ دور نکل گئے تو اس نے بزرگ کو بتایا کہ آپ کے پپ تو اتر چکے ہیں جب انہوں نے غور کیا تو واقع ان کے پپ اتر چکے تھے- انہوں نے اس قدر آہ و زاری کی کہ چرند و پرند نے رونے کے ساتھ ساتھ ان کی مغفرت کے لیے دعا کی اور ان کی عاجزی دیکھ کر انہیں معاف کر دیا گیا- جب بزرگ جانے لگے تو ساتھی نے پوچھا کہ آپ نے کیا خطا کی جس کی آپ کو یہ سزا ملی- انہوں نے جواب دیا کہ چند روز قبل میں نے افعال الہی میں دخل اندازی کی تھی حالانکہ مجھے حکم احکام الہی بجا لانے کا تھا میں کشتی میں سفر کر رہا تھا کہ بارش ہونے لگی میں نے اللہ سے عرض کی کہ یا اللہ سمندر تو پہلے پانی سے بھرا ہے یہاں تو بارش کا پانی ضائع کرنا ہے اگر کھیتوں میں ہوتی تو کسانوں کا فائدہ ہوتا-
انسان جس طرح سائنسی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرتا جا رہا ہے اپنی تخلیق اور اوقات بھولتا جا رہا ہے کہ یہ کس چیز سے بنایا گیا- اس ناپاک قطرہ سے اس کو پیدا کیا گیا کہ جب کپڑے پر لگ جائے تو وہ ناپاک ہو جاتا ہے تو انسان اسے اتار دیتا ہے اور دوبارہ دھو کر پہنتا ہے تو اللہ نے اسی لیے اسے قرآن پاک میں مخاطب کر کے فرمایا ہے
''تو آدمی کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا- وہ بنایا گیا اچھلتے پانی سے جو نکلتا ہے پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے''
اس انسان کی اوقات یہ ہے کہ نہ اپنی مرضی سے پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے اس دنیا سے جا سکتا ہے- اپنی مرضی سے خوش رہے سکتا ہے نہ ہی غم میں رہے سکتا ہے- سید نصیر الدین نصیر اس بے بسی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ
اتنا نہ اکڑ نہ اتنے جذبات میں رہے
حد سے نہ گزر دائرہ ذات میں رہے
اک قطرہ ناپاک نسب ہے تیرا
یہی ہے اوقات تیری اوقات میں رہے
انسان کے بس میں بیماری نہ شفا ہے اللہ فرماتے ہیں ''شفا دینا والا اللہ ہے'' اور بیماری بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے- اللہ نے اکڑ کر چلنے سے منع کیا ہے- انسان کی بے بسی کی موجودہ بہترین مثال کرونا وائرس ہے جس سے اللہ نے انسان کو بے بس کر دیا ہے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ کرونا کے ساتھ رہنا سیکھ لو ہو سکتا ہے آئندہ دو ڈھائی سال کے اندر کوئی ویکسین تیار کر لی جائے- لگتا مشکل ہے کیونکہ وائرس ہر دفعہ اپنی شکل تبدیل کر انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے- اسی طرح کے واقعات سے انسان کو اس کی اوقات یاد دلائی جاتی ہے کہ وہ ظلم سے باز آ جائے- ہمیں غرور و تکبر سے بچنا چاہیے اور اپنی اوقات کو یاد رکھنا چاہیے- آپ نے سفیدے کا درخت دیکھا ہو گا جو اکڑ میں ہوتا ہے چالیس پچاس فٹ اونچا ہوتا ہے اس پر کبھی پھل نہیں لگتا البتہ بیج ضرور لگتا ہے- پھل جو کھانے کے قابل ہوتا ہے انہی پر لگتا ہے جو عاجز ہوں جھکے ہوں- ہمیں بھی تکبر اور اکڑ کی بجائے عاجزی اختیار کرنی چاہیے تاکہ ہمیں بھی پھل ملے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :