عورت اور ہمارا معاشرہ

ہفتہ 6 مارچ 2021

Javed Ali

جاوید علی

عورت ہو یا مرد دونوں ہی ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جن کے بغیر اس گاڑی کا چلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے سو دونوں ہی انتہائی اہم ہیں اور ہمیں ان کی اہمیت کو جاننا لازمی ہے۔ اگر ہم موٹر سائیکل کی ہی مثال لے لیں تو ہمیں بات سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو گی کیونکہ ہم سب اس سے اچھی طرح واقفِ ہیں۔ اگر ہم نیا موٹر سائیکل خریدیں اور اس کا آگے والا پہیہ اتار لیں تو کیا موٹر سائیکل چل سکے گی؟ بلکل نہیں چل سکے گی، ہم اسے اسٹارٹ تو کر لیں گے، گیئر بھی لگا لیں گے لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلے گا نہیں حالانکہ ہر حصہ، ہر پرزہ موجود ہے سوائے پہیہ کے۔


اسی طرح انسان بھی ہے جس کے پاس دولت، شوہرت، عزت سب کچھ موجود بھی ہو پھر بھی اسے زندگی گزارنے اور اپنی بقاء کیلئے دوسرے انسان کی ضرورت ہے خواہ وہ جتنا بھی اس سے بھاگنے کی کوشش کرے۔

(جاری ہے)

مرد عورت کے بغیر رہنا چاہے تو وہ نہیں رہ سکتا اسی طرح اگر عورت اکیلا رہنا چاہے تو شاید وہ زندہ نہ رہے پائے کیونکہ معاشرے میں رہنے کے چند اصول ہوتے ہیں جن کے بغیر کوئی بھی معاشرہ  زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔

ہمارے معاشرے میں گو کہ عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن آپ نے ضرور مشاہدہ کیا ہو گا کہ جب اسی معاشرے میں عورت میں اکیلی ہو تو اسے نہ صرف شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جس وقت تک عورت کے پاس باپ، بھائی، بیٹا یا شوہر جیسے رشتوں کا سایا موجود ہو تو اسے کسی قسم کی انسیکیورٹی محسوس نہیں ہوتی۔ اگر ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو عورت دوسروں کی حوس کا ضرور نشانہ بنتی ہے۔

میرے اپنے مشاہدے کے مطابق جن عورتوں کے پاس یہ رشتے نہیں ہوتے ان میں نوے فیصد سے زیادہ حسن کے بازاروں کی زینت بنتی ہیں۔ محترمہ بانو قدسیہ اپنے آخری ٹی وی انٹرویو جو اوریا مقبول جان نے کیا تھا اس میں کہا تھا کہ عورت کو ایک مرد کی عزت و خدمت کرنا ہوتی ہے جس بدلے چار مرد اس کی عزت و تکریم اور خدمت کرتے ہیں جو اس کے بیٹے ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں تو ویسے بھی مرد گدھے کی طرح سب بوجھ اٹھاتا ہے بلکہ اس میں فخر محسوس کرتا ہے۔

باہر کے سب کام اسی کے ذمہ ہیں لیکن عورتیں بھی ان کا ضرور مدد کرتیں ہیں بلکہ اس میں آر بھی محسوس نہیں کرتیں۔ گاؤں میں تو عورتیں گھریلو کام کے ساتھ ساتھ باہر کے کاموں میں مصروف ہوتیں ہیں جب بھی کسی فصل کو کاٹنے کا سیزن آتا ہے تو عورتیں مردوں کے ساتھ کام کرتی دیکھی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال یوں بیان کرتے ہیں کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :