سلطنتِ عثمانیہ اور موجودہ امتِ مسلمہ کے حالات

پیر 21 دسمبر 2020

Javeria Saleem

جویریہ سلیم

جب سے ارطغرل ڈرامہ پاکستان میں دیکھانا شروع کیا ہے تب سے ہر شخص کی زبان پر صرف ارطغرل کا نام ہے۔ لیکن اس کی مقبولیت کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ اس کا جواب ارطغرل دیکھنے والے خود دیتے ہیں کہ اس میں اسلامک آیڈیالوجی کو بیان کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے کی مقبولیت کو دیکھ کر میں نے بھی دیکھنی شروع کردی۔ اور ایک مہینے میں ارطغرل کے 5 سیزن مکمل کر لیے۔

اس کے بعد عثمان کا سیزن شروع کیا۔عثمان کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا نظارہ دیکھنے کو ملا جس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔
عثمان کے پہلے سیزن میں صلیبی فوج کے سربراہ یانیس ایک کتاب پڑھتے ہوئے کہتے ہیں الفارابی تیرے جیسے علماء اور عثمان جیسے نڈر جنگجو اگر صلیبی  فوج میں ہوتے تو یانیس کہتا ہے کہ پوری دنیا پر صلیبی پرچم لہراتا۔

(جاری ہے)

اب بات یہاں سے شروع  ہوتی ہے کہ ہم جو ایک اتنا مظبوط نظام رکھتے تھے جنگجو تھے۔

کسی مظلوم کی پکار سن کر پوری دنیا سے لڑجاتے تھے۔آج کشمیر کو کرفیو میں  گئے 1سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ہم  ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیتھے ہیں کہ حالات ٹھیک ہو جایئں گے۔
اس کے لیے تھوڑا ارطغرل اور پھر سندھ کی تاریخ لکھونگی۔ تو بات یہ ہے کہ ارطغرل ایک جگہ ایک عالم کی جان بچانے کے لیے اپنے ساتھیوں کی جان داو پر لگاتے ہیں۔اس ڈرامے کے اندر بہت  کام صبر سے بھی لیا گیا ہے لیکن اس بات کو بتایا گیا ہے کہ امتِ مسلمہ میں مظلوم کی مدد کرنا لازم ہے چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو؟ اس کا عملی مطاہرہ ارطغرل صلیبی لشکر کے کمانڈر آرس کو بچا کے دیکھاتے ہیں جب اسے سلجوقی امیر کے سامنے پیش ہونے کے بعد جب مسلمان حملہ کرتے ہیں تو ارطغرل آرس کی مدد کرتے ہیں۔

اس عمل سے متاثر ہوکر آرس مشرف بہ اسلام ہو جاتا ہے۔
اس کی دوسری مثال محمد بن قاسم کی ہے جو ایک مظلوم خاتون کی آہوپکارسن کر مدد کو آتے ہیں۔اوس کے لیے وہ سندھ کے راجا داھر اور دیبل تک کے لوگوں سے جنگ کرتے ہیں۔اور ایک وسیع زمین پر اسلام کی عمل سے تبلیغ و ترویج کر کے جاتے ہیں۔
اتنی بڑی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ آج ہم اتنے لبرل وہ دیسی بن چکے ہیں کہ کشمیر کی عوام کو ان کے حال پر چھوڑ کر خاموش کیوں۔

ہمارا وزیراعظم ایک تقریر کرتاہے اور قوم پھر سے بھیڑ کے پیٹ سے اونٹ کی امید لگا لیتی ہے،آخر ہم کب تک یو این کی ٹرک والی بتی کے پیچھے بھاگتے رہیں گے۔اگر یواین نے مسلہ حل کروانا ہوتا تو 1948 میں بھارت نے سٹینڈ سٹل معاہدہ کو توڑ کر کشمیر پر حملہ کیا اور یو این نے پاکستان پر پریشر دے کر پاکستان کی فوجیں واپس بلا لیں اور مسلہ حل کروانے کا وعدہ کیا جو کبھی وفا نہ ہو سکا۔اب پاکستان کو سمجھ جانا چاہیے کہ اب ترکیب بدلے اور ایک نئے انداز سے مسلہ کسشمیر کا مقدمہ لڑے یا پھر ٹرک کی بتی کوچھوڑ کر سب جو ہو رہا ہے قبول کر کے خاموش رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :