پاکستان میں اسرائیل پھر سے زیرِ بحث کیوں؟

ہفتہ 12 دسمبر 2020

Javeria Saleem

جویریہ سلیم

چند روز قبل اسرائیل کے اخبارات نے اسرایئل کے وزیرِاعظم بنیامین ناتھن یاہو کے سعودی عرب کے خفیہ دورے کی خبر دی تھی۔اسرایئلی اخبارات نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ اسرایئلی وزیراعظم نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی ہے۔انھوں نے اس بات کی بھی پیشن گوئی کی تھی کہ سودی عرب بھی چند عرب ممالک کی طرح اسرایئل کو ملک تسلیم کرنے والا ہے۔

اس خبر نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔سعودی عرب کی حکومت اور میڈیا نے اس خبر کی تردید کی ہے۔سعودی حکام نے اس خبر پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں اور سعودی عرب اس خبر کی مکمل تردید کرتا ہے۔سعودی حکام کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی طرف سے کوئی اس طرح کی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی سعودی حکومت اسرایئل کو ملک تسلیم کرنے کو تیار ہے۔

(جاری ہے)


جب یہ خبر منظرِعام پر آئی تو سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو گیا ہے اور یہ خبر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی۔پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر یہ خبر کافی زیرِ بحث رہی۔پاکستان میں یہ خبر صرف زیرِ بحث نہیں بلکہ اس پر مزید قیاس آرائیاں بھی ہویئں کہ پاکستان پر بھی بیرونی پریشر ڈالا جا رہا ہے کہ اسرایئل کو ملک تسلیم کرلے فلسطین کے مسلے کا نکالے بغیر۔

یہ بات بھی گردش میں رہی کہ پاکستان بھی سعودی عرب کے ساتھ اسرایئل کو ملک تسلیم کر رہا ہے۔لیکن پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ پاکستان پر کوئی بیرونی پریشر نہیں اسرایئل کو ملک مان لےاور ساتھ اس بات کی بھی تصدیق کردی کہ پاکستان اسرایئل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا۔جب تک وہ فلسطین کے مسلمانوں کو مکمل آزادی اور بیت المقدس فلسطین مسلمانوں کے حوالے نہیں کرتا۔


ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں ہرسال یکے بعد دیگرے یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ پاکستان اسرایئل کو تسلیم کرنے والا۔ یہ خبر کچھ دن تو نیوز چینل کی زینت تو بنتی ہے لیکن بغیر کسی ردِعمل کے ماضی کا قصہ بن جاتی ہے۔کبھی مولانا فضل الرحمن صاحب کو اسرایئل کے طیارے نطر آتے ہیں تو کبھی ہمیں مشرف کے دور کے قصے سماعت کرنے کو ملتے ہیں کہ پاکستان اس وقت وفود کی سظح تک اسرایئل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا تھا۔

کوئی بھی سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کوئی دھرنا دے یا حکومت یا اپوزیشن پر تنقید کرے تو اس پر یہودی ایجنٹ کے فتوے لگتے ہیں۔آخر یہ کیوں؟
آخر یہ بات سوچنے والی نہیں کہ پاکستان میں اسرایئل کو باربار زیرِبحث کیوں لایا جا رہا ہے؟کیا یہ وہی بات نہیں کہ اگر آپ کسی دشمن کے لیے نئی نسل میں اس کا تذکرہ اچھے یا برے الفاظ میں باربار کرتے رہیں ایک دن آئے گا کہ اس دشمن کے لیے نئی نسل کے دل میں الفت کے جذبات پروان چڑھیں گے۔

حالانکہ ہم تو اسرایئل کے بارے میں اپنے لیڈر قائدِاعظم  محمد علی جناح کے بیان سے بھی روشنی لے سکتے ہیں۔ قائدِاعظم نے فرمایا تھا کہ جس کا مفہوم ہے کہ ہم اسرایئل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کریں گے جب تک اسرایئل فلسطینی مسلمانوں کو ایک الگ آزاد اور خود مختیار ریاست تسلیم نہیں کرتا جس کا دارالخلافہ بیت المقدس ہوگا۔ہم اس وقت تک اسرایئل کو ملک تسلیم نہیں کریں گے۔جب ہم اسرایئل کے بارے میں اتنے مضبوط عقائد رکھتے ہیں تو اسرایئل کو قبول کرنے اور وغیرہ وغیرہ کی خبریں باربار کیوں گردش کرتی ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :