پہلے تولو پھر بولو

پیر 14 دسمبر 2020

Javeria Saleem

جویریہ سلیم

کافی عرصے سے پاکستان میں سیاسی ماحول بہت گرم ہے۔ حزبِ اختلاف اور حکومتی  اراکین کے درمیان ایوان میں تلخ جملوں کا ہمیشہ تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ جس سے اکثر اجلاس بغیر نتیجہ ہی ختم ہوتے ہیں۔ ان اجلاسوں سے نہ کوئی نتیجہ نکلتا ہے اور نہ عام آدمی کے فائدے کے بارے میں کوئی موثر اقدام اٹھائی جاتی۔ کیونکہ حکومتی نمائندے حزبِ اختلاف پر چور ڈاکو کے لقب سے پکارتے ہیں۔

اگر ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اپوزیشن بھی کبھی گندم چور اور چینی چور کے نعرے لگاتے نطر آتے ہیں۔ یہی نظام لگا رہتا ہے اور عوام کی بات کرنے والا کوئی نہیں۔ اگر مہنگائی کی بات کی جائے تو یہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔اس کی وجوہات جو بھی ہوں لیکن عوام جن کو ووٹ دے کر ایوانوں میں بھیجتے ہیں تاکہ ان کے مسائل وہاں پر بتاہیں اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔

(جاری ہے)

لیکن یہاں پاکستانی پارلیمنٹ میں تو ایک سرکس کا نظارہ پیش کرتی ہے۔ جہاں پر قومی اور عوامی مسائل کو نظر انداز کرکے ایک دوسرے کی نفرت میں تمام حدیں عبور کر لیتے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ گزشتہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ ن کے ایک رکن قومی اسمبلی ایاز صادق نے جس طرح سے 27 فروری 2020 کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ کانپ رہے تھے وغیرہ وغیرہ۔

ان کی یاد  دہانی کے لیے صرف اتنا ہی کہ ہماری افواج نے بہادری کے ساتھ دشمن کا طیارہ گرا کر غرور خاک میں ملا دیا۔ایاز صادق صاحب نے مزید کہا کہ پاکستان نے بھارتی پائلٹ کو بھارت کی ممکنہ حملے سے ڈر کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ ایاز صادق صاحب کو یہ یاد کرنا چاہیے کہ پاکستان نے ابھی نندن کو امن قائم کرنے کے لیے چھوڑا تھا اور یہ فیصلہ تمام عسکری اور سیاسی قیادت نے مل کر یہ فیصلہ کیا تھا۔

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی پی ڈی ایم نے جب سے حکومت کو گرانے کی کوشش کی ہے وہ تمام اخلاقی اقدار کو بھول چکے ہیں۔اس کی عملی مثال گجرانوالہ پھر کراچی اور پھر کوئٹہ کے جلسوں میں جو زبان استعمال کی گئی اس میں تو پاکستانیت کی محبت کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔ اپوزیشن اپنے آپ کو عدالتی کاروائی سے بچانے کےلیے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔

پاکستان کےلیے وہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔لیکن اپوزیشن کو تو ان کا کوئی خیال نہیں کیونکہ مہنگائی میں تو غریب پس رہا ہے ان کے بچے سکون اور آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپوزیشن کے ارکان جب بھی بولتے ہیں انھوں نے پاکستان کے عسکری اداروں اور نیشنل انٹریسٹ کے خلاف ہی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس کا اندازہ یہ لگا لیں کہ ایاز صادق کے بیان کے بعد بھارتی میڈیا نے اس ایشو کو بڑھا چڑھا کے بیان کرنا شروع کر دیا۔ ایاز صادق نے بعد میں اپنا بیان واپس بھی لیا لیکن اب کیا ہوسکتا تھا جب چڑیاں چُگ گئی کھیت۔ ان کے بیان سے جو جگ ہنسائی ہوئی کیا وہ واپس آسکتی ہے ہرگز نہیں۔اس لیے تو کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :