
علامہ اقبال کی مسلمان عورت
جمعہ 4 دسمبر 2020

کوثر عباس
”اے مسلمان عورتو ! بچہ زبان کھولے تو اسے سب سے پہلے کلمہ طیبہ سکھاوٴ تاکہ تمہاری تربیت سے وہ ایک ایسی بجلی بن جائے جس کے پیغام سے صحرا اور فلک بوس پہاڑ تک چمک اٹھیں ۔جدید(مغربی ) تہذیب تمہارے دین پر ڈاکا ڈالنے کے لیے تیار ہے اور معصوم لوگ اس کا شکار ہیں ۔اس تہذیب کے گرفتارخود کو آزاد سمجھتے ہیں لیکن در حقیقت آزاد اور زندہ وہی ہیں جواس تہذیب کے چنگل سے بچ جائیں ۔
(جاری ہے)
تم شریعت محمدی کی امین ہو ۔ تمہاری نئی نسل اپنی اسلامی تہذیب سے بیگانہ ہو رہی ہے ۔ ان میں اپنی اقدار کو راسخ کرنے کے لیے تمہیں سیدہ فاطمہ کا کردار ادا کرنا ہوگا تا کہ تمہاری گود میں بھی کوئی شبیر پیدا ہو “۔
یہ کسی مولوی کے تقریر نہیں بلکہ مصور پاکستان اور جدید فلسفے کی سند علامہ اقبال کی شاعری کا ترجمہ ہے ۔ اسرارخودی میں وہ دو عورتوں کی مثال دیتے ہیں ۔ ایک عورت کسی دہقان کی ان پڑھ ، جاہل اور بدصورت بیٹی ہے لیکن اگروہ بارِامومت (ماں کی ذمہ داریاں)ذمہ داری سے اٹھاتی ہے اور اس کی گود سے امت مسلمہ کو ایک مرد ِ حق پرست مَیسَّر آتا ہے۔ دوسری عورت حسن وجمال کا مرقعبھی اور جدید تعلیم سے لیس بھی لیکن اس کی آغوش خالی ہے اوروہ بار امومت(ماں بننے ) کو بوجھ سمجھتی ہے ۔قوم کو پہلے جیسی ان پڑھ عورتوں کی ضرورت ہے کیونکہ انہی کی شام سے قوم کی سحر فروزاں ہے ۔بہتر یہی ہے کہ ملت اسلامیہ کا دامن دوسری قسم کی عورتوں کے داغ سے پاک رہے“۔
علامہ اقبال نے ایسی عورت کو ”داغ “ کہا ہے جو اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے دور بھاگے ۔مغرب نے عورت کو اشتہار بنایا اورخاندانی نظام بگڑنے سے جب وہاں کا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو گیا توامت مسلمہ بالخصوص پاکستان کے خاندانی نظام کو بھی اسی ہتھیار سے شکارکرنے کی کوشش کی گئی ۔چونکہ ماں کی حیثیت خاندان میں ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے ، لہذا ایک طرف تو یہاں کی عورت کو ماں بننے سے متنفر کیا گیا اور دوسری طرف جو عورت ماں بن چکی تھی ، اسے یہ باور کرایا گیا کہ بچے پیدا کرنا اور ان کو پالتے پالتے مر جانا جاہل عورتوں کا کام ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ اوّل تو عورت بچے ہی پیدا نہ کرے اور اگر بفرض محال ایسا ہو بھی جائے تو وہ ان کی تربیت نہ کرنے پائے ۔اولاد پر پیسے کو ترجیح دینے عورت کو علامہ اقبال نے یوں مخاطب کیا ؛
تردماغ و سخت کوش و چاق و چست“
کہ در آغوش شبیرے بگیری “
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اس علم کو اربابِ نظر موت “
وہ قطرہ نسیاں کبھی بنتا نہیں گوہر “
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ “
غیرت نہ تجھ میں ہو گی نہ زن اوٹ چاہے گی “
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت“
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں معذور ہیں مردان خردمند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند “
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
کوثر عباس کے کالمز
-
میری بیلن ڈائن!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اسامی خالی ہیں !
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ایک کہانی بڑی پرانی !
بدھ 26 جنوری 2022
-
اُف ! ایک بار پھر وہی کیلا ؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
نمک مت چھڑکیں!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
دن کا اندھیرا روشن ہے !
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
سانحہ سیالکوٹ: حکومت ، علماء اور محققین کے لیے دو انتہائی اہم پہلو
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
بس ایک بوتل!
اتوار 5 دسمبر 2021
کوثر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.