کتّا بنام انسان!

بدھ 3 فروری 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

ریاست ماں کے حاکمان پر تنقید کرنے سے پہلے یہ تو سوچ لیا کرو کہ کتا اگر انسان بننے کی کوشش کرے ، باوٴلا ہو جائے یا پھر مالک کی مرضی کے بغیر شکار کرنے کی کوشش کرے تو اسے مار دیا جاتا ہے ۔کتااگر کتا ہی رہے ، مالک کا وفادار ہو ، مالک کے اشاروں پر ناچے اور اس کی خاطر کسی کو بھی بھنبھوڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے تو وہ پیاسا نہیں مرتا بلکہ اسے قیمتی گاڑیوں میں سیر کرائی جاتی ہے ، منرل واٹر پلایا جاتا ہے ،تیتر بٹیر کا گوشت کھلایا جاتا ہے ، دودھ پنیر کا ناشتہ کرایا جاتا ہے اور اسے اعلیٰ A.C کمروں میں ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ اسے نہلانے کے لیے بھی انسان” رکھا “جاتا ہے بلکہ بول بزار صاف کرنے کے لیے بندہ الگ ہوتا ہے۔

وفاداری بہت بڑی چیز ہے ۔وہ دن گئے جب وفاداری بشرطِ استواری کا رواج تھا ۔

(جاری ہے)

نئے پاکستان میں استواری بشرطِ وفاداری کا چلن ہے۔اے انسانو! جو لوگ اس وقت ریاست میں VVIPکا درجہ رکھتے ہیں ، بھلا تم ان سے ہاتھ ملا سکتے ہو؟ ان کے گھر مفت میں رہ سکتے ہو؟ان کے گھر کے کسی بھی کمرے میں جا سکتے ہو؟ان کے محل کے وسیع لان میں کھیل سکتے ہو؟ ان سے آسانی سے مل سکتے ہو؟نہیں ناں! ایسا نہیں ہو سکتاناں۔

اگر تم ان سے ملنا چاہوتوبہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے ،سیکرٹری سے وقت لیا جائے گا ، کام پوچھا جائے گا اور پھر اگر ”ان“ کی مرضی ہوئی تو چند منٹ عنایت کیے جائیں گے ورنہ وہ ”ضروری“ امور نمٹانے میں مصروف ہو جائیں گے ۔تم انسان ہو ، زندہ باد کے نعرے بھی لگاتے ہواور میں ایک کتا ، لیکن میری قدر زیادہ ہے ۔میرے مالکوں کو کوسنے کی بجائے کبھی غور کیا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ایسا صرف وفاداری کی وجہ ہے ۔

انہیں نعرے لگانے والوں سے زیادہ ضرورت ایسے کتوں کی ہوتی ہے جن کی اپنی کوئی سوچ نہ ہو،وہ بھونکیں تو مالک کی مرضی سے اور وہ بھی عادتاً نہیں بلکہ صرف ”مالک“ کے مخالف پر ۔کتے کے لیے اس کا مالک ہی ریاست ہے۔
کہا گیا کہ مجھے قیمتی گاڑیوں میں کراچی کی سڑکوں کی سیر کرائی گئی ۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انسان نفرت میں اتنے اندھے بھی ہو سکتے ہو۔

پہلی بات تو مجھے یہ بتائیے کہ کیا کراچی کی سڑکیں سیر کے قابل ہیں؟اگر ہاں توپھر یہ مت کہا کرو کہ زرداری سرکار نے کراچی کا برا حال کر دیا ہے۔جس شخص نے کراچی کی سڑکوں کو اتنا شاندار بنا دیا ہے کہ کتے جنگل چھوڑ کر ان کی سیر کرنے لگیں ،اسے کرپٹ کہنا کہاں کا انصاف ہے؟جس طرح تم شہروں میں رہتے رہتے اکتا جاتے ہو اور سیر کے لیے جنگل کا رخ کرتے ہو اسی طرح کتے جنگل میں رہ رہ کر جب اکتا جاتے ہیں تو سیر کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں۔

بس اتنی سی بات تھی لیکن تم انسان ہو ناں ، اسے بھی سیاست کی نظر کر دیا ۔ اسی لیے مالک تم سے زیادہ ہم سے پیار کرتے ہیں کیونکہ ہم غیر سیاسی ہیں۔دوسری بات یہ کہ تم انسان عرصے سے گاڑیوں میں فراٹے بھرتے پھر رہے ہو ، ہماری برادری نے کبھی اعتراض کیا ہے؟اور تو نہیں تو کم از کم اسی بات کالحاظ کر لیا ہوتا۔
ہمارے جیسا بننا ہے تو گالیاں دینے اور ٹرینڈ چلانے کی بجائے ہمارے جتنے وفادار بنو۔

ہم نے کبھی اس بات پر احتجاج نہیں کیا کہ روٹی نہیں مل رہی ، پانی نہیں آ رہا، مہنگائی ہو رہی ہے ، گیس بجلی کا بل زیادہ آ رہا ہے ، کرپشن کیوں ہو رہی ہے ؟آٹا ، چینی اور دوائیں کیوں مہنگی ہوئی ہیں ؟ بیرورگاری کیوں بڑھ رہی ہے ؟تعلیم ، صحت اور انصاف کا معیار دوہرا کیوں ہے؟ہم بس مالکوں کی رضا میں راضی رہتے ہیں اور بدلے میں قیمتی گاڑیوں میں سیر سپاٹے کرتے ہیں ۔تمہاری طرح قانون اور حقوق کی بات کر کے ذلیل نہیں ہوتے اور، میرے مالک مجھے یہی بات سمجھانے کے لیے سڑک پر لائے تھے کہ دیکھ لو اورسوچ لو کہ کتا بن کر عیاشی کرنی ہے یا انسان بن کر ذلیل ہونا ہے؟اور ہاں ! آج کے بعد مجھے کتا نہیں کہنا ،میں کتا نہیں اپنے مالک کا محافظ ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :