سوشل اظہارِ تعزیت !

جمعرات 18 نومبر 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

ہاشو شکاری کا آج کا دن ہی خراب تھا ۔کلاس میں بیٹھے بیٹھے فیس بک کھولا ،” ان کلاس“ لکھا اور پوسٹ کا بٹن دبا دیا۔ پوسٹ اپلوڈ ہونے کی دیر تھی کہ سامنے کرسی پر بیٹھے استاذ کا کمینٹ آیا :اسی وقت کلاس سے نکل جاوٴ۔ ہاشو بمشکل کمرے سے نکلا ہی ہو گا کہ کالج کا پرنسل استاذ کے کمینٹ کو لائیک بھی کر چکا تھا ۔بیپ کی آواز بارے دگر گونجی، ہاشو نے دیکھا تو اس کا جگری دوست شیدا پلمبر تھا ، کہہ رہا تھا :جگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، میری طرف آ جا، مل کر پب جی کھیلیں گے ۔

ہاشو نے ” بس آدھے گھنٹے میں آیا“ لکھ کر ریپلائی کر دیا،ابھی موٹر سائیکل کو کک بھی نہیں ماری تھی کہ ایک اور کمینٹ آ گیا ۔دیکھا تو امی کہہ رہی تھیں :کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے بیٹا ! مارکیٹ سے ایک کلو سبزی پکڑو اور فوراً گھر پہنچو ۔

(جاری ہے)

بوجھل دل کے ساتھ سکرین آف کی ہی تھی کہ فون ایک بار پھر تھرتھرایا۔اب کی بار منگیتر نے لکھا تھا: دھوکے باز ! تم نے تو کہا تھا کہ میں ہسپتال میں ہوں ، دادی آخری سٹیج پر ہیں ۔

ہاشو وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔فون تو ایک مشین ہے اسے انسانی جذبات سے کیا یارا ۔سو آنکھ بھی جھپک نہ پایا تھا کہ دو کمینٹ اور آ چکے تھے ۔ڈرتے ڈرتے موبائل کھولا تو ابونے امی کو ریپلائی کیا تھا : دیکھ لیے اپنے بیٹے کے کرتوت؟اس سے ٹھیک نیچے دادی نے لکھا تھا : تیرا بیڑا غرق ، تونے مجھے یعنی اپنی دادی کو ، یعنی اپنے امی کی ساس کو ، یعنی اپنے ابو کی ماں کو جیتے جی مار ڈالا ۔


بہرحال ہاشو جیسے تیسے گھر پہنچا ، کمرے کو لاک کیا ، دادی کی دیسی طعنے اور والد کا غصہ ، خدشات سے جان چھڑانے کے لیے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر مٹر گشت ، سکرول کرتے کرتے بچپن کے دوست شہابے مستری کی پوسٹ پر نظر پڑی ، لکھا تھا : میری دادی جان قضائے الہی سے وفات پا گئی ہیں ، پوسٹ تین دن پرانی تھی ، نیچے کافی سارے کمینٹ تھے ، شرمندگی کے احساس نے گھیر لیا ، سوچا : شہابا کیا کہے گا کہ ایک شہر میں رہتے ہوئے جنازہ پڑھا ، فون کیا اور نہ ہی کمینٹ، بہرحال دیر آید درست آید کے تحت جیسے تیسے اس نے بھی اظہار تعزیت بصورتِ کمینٹ کر ہی ڈالا ۔


میرے پیارے شہابے! سوشل میڈیا پر آپ کی دادی کے انتقال کا پتا چلا ، اس میں برا مت منائیے گا ،آپ کو تو پتا ہی ہے کہ سوشل میڈیا کا دور ہے ، ہر چیز سوشل ہو چکی ، جدید دور ہے ، اب تو پاکستان میں حکومت بھی میڈیا پر ہی چل رہی ہے ، یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں کوئی گاڑی لیٹ نہیں ہوتی ، یہاں سب بکتا ہے ، سب ملتا ہے ، سب چلتا ہے ، جب حجلہ عروسی کی تصاویر سوشل میڈیا پر آ رہی ہیں تو فوتگی کی خبریں کیوں نہ آئیں ؟ویسے بھی جو کہیں نہ ملے وہ یہاں مل جاتا ہے ، بوڑھوں کو جوان کر دینے والی دوائی ہو ، کوئلوں کو گورا کر دینے والی کریم ہو ، نوے روپے کلو چینی ، بتیس روپے لٹر پٹرول ، لاکھوں نوکریاں، کروڑوں گھر، شہباز شریف کی کرپشن ، پشاور میٹرو ،رانا ثناء اللہ کی چرس یانیا پاکستان وغیرہ اور کہیں ملے نہ ملے سوشل میڈیا پر ضرور ملے گا ، وزیرصاحب جان اللہ کو دیں نہ دیں لیکن سوشل میڈیا پر جان ضروردیتے ہیں ، دنیا جہاں کی سب سے سستی ، اچھی اور پائیدار پاکستان میں سوشل میڈیا پر دستیاب ہے۔


 میرے شہابے! تمہاری دادی کی فوتگی کی اطلاع بھی سوشل میڈیا پرہی ملی ، مجھے تو خیر اطلاع ہی تاخیر سے ملی لیکن ہائے وہ دوست جو اسی شہر میں ہیں لیکن ایک کومینٹ تک نہیں کیا ، کمینٹ پڑھ رہا ہوں ، دل خون کے آنسو رو رہا ہے ، رہ رہ کران کی یاد ستا رہی ہے ، مرحومہ بڑی اچھی خاتون تھیں ، ہمیشہ آن لائن رہتی تھیں ، پوسٹ شادی والی ہو یا ماتم والی انہوں نے کبھی مس نہیں کی ، ہمیشہ بر وقت جواب دیتی تھیں ، سیانی اتنی تھیں کہ کبھی ماتم والی پوسٹ پر لائیک والی ایموجی پریس نہیں کی تھی ، بڑی بھلی مانس تھیں ہر کسی کی ریکوئسٹ ایکسیپٹ کر لیتی تھیں ، کبھی کسی کی پوسٹ پر غلط کمینٹ نہیں کرتی تھیں ، کمیونٹی سٹینڈرڈ کا اتنا خیال رکھتی تھیں کہ ان کا اکاوٴنٹ کبھی سسپینڈ نہیں ہوا تھا ، مثبت خبروں پر اتنا یقین رکھتی تھیں کہ ہر کسی کی تصویر کو لائیک دے کر اس کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں ، روادار اتنی کہ کبھی کسی کو پوک نہیں کیا تھا ،جب سے انہیں پتا چلا کہ موبائل ہلانے سے سامنے والی پوسٹ پر خود بخود ”رپورٹ“ کا آپشن آ جاتا ہے انہوں ہاتھ ہلاناچھوڑ دیا تھا ، ریکوئسٹ کسی پیج کو لائیک کرنے کی ہوتی یا کسی گروپ میں آنے کی انہوں نے کبھی ریجیکٹ نہیں کی تھی ، صاف گو اتنی تھیں کہ تاریخ پیدائش بالکل درست لکھی تھی ،بلکہ ہر روز ڈی پی میں اسی دن کی تصویر لگاتی تھیں تا کہ کسی کو کسی قسم کا ’ ’بھلیکھا“ نہ ہو، ایسی پوسٹوں پر خصوصی شفقت برتتی تھیں جن پر کوئی کمینٹ یا لائیک نہیں آتا تھا ، ہر کسی کی تعریف کرنا اپنا سوشل فریضہ سمجھتی تھیں ، یہ ان کا سوشل پن ہی ہے کہ ان کی فوتگی والی پوسٹ تمہاری پوری وال میں سب سے زیادہ رش لے رہی ہے ، آہ! دادی کتنی سوشل تھیں کہ جب موت آئی تب بھی آن لائن تھیں ، ادھر نیٹ روک کے سگنل ڈاوٴن ہوئے ادھر ان کی زندگی کی لائن بھی کٹ گئی ،یہ ان کا اخلاص ہی تو ہے کہ سوشل میڈیاکا ہر مجاہد مرحومہ کے سورگ باشی ہونے کی دعا مانگ رہا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :