حلوہ کہانی

ہفتہ 20 مارچ 2021

Khalid Imran

خالد عمران

ایک پرانی کہانی، جو اس وقت تک پرانی نہیں ہوگی، جب تک ہم جمہوریت کے فریب اور بچے جموروں کے چنگل سے نہیں نکلیں گے۔ کہانی پیش خدمت ہے۔
ایک ملک میں نئے بادشاہ کے ’انتخاب‘ کا طریقہ بڑا دلچسپ تھا۔ دارالحکومت کا دروازہ بند کردیا جاتا تھا اور اگلے دن سب سے پہلے دارالحکومت کے دروازے پر آنے والے کو بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔

شاید وہاں’دھکا‘ وغیرہ دینے کا رواج نہیں تھا، بہرحال ایک دفعہ جب بادشاہ سلامت وفات پا گئے… جی ہاں! فوت ہوگئے۔ کیا خوش قسمت تھے وہ لوگ جن کے بادشاہ طبعی طریقے سے فوت ہوا کرتے تھے… بادشاہ کی وفات کے بعد دارالحکومت کا دروازہ بند کردیا گیا۔ اگلے دن دروازہ کھلنے پر سب سے پہلے جو شخص شہر میں داخل ہوا وہ ایک فقیر تھا، جس کے ہاتھ میں کشکول بھی تھا۔

(جاری ہے)

رواج کے مطابق کشکول بردار فقیر کو بادشاہ بنا دیا گیا، اب ایک فقیر کیا جانے امور سلطنت کی انجام دہی…فقیر نے نسلوں پرانی بھوک ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے کھانے بنواکر کھانا شروع کردیے اور کشکول سنبھال کر رکھ لیا، کیونکہ اس ملک کا خزانہ بھرا ہوا تھا۔ ویسے فقیر کافی سمجھ دار تھا کہ اس نے کشکول توڑنے کا نعرہ لگانے کی بجائے اسے سنبھال لیا۔

کاروبار حکومت چلانا چونکہ بادشاہوں کا ہی کام ہے، فقیروں کے بس کی بات نہیں، لہٰذا اس ملک میں بھی وہی ہوا، جو ”فقیروں“ کو تخت وتاج سونپنے کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے، ہر طرف افراتفری مچ گئی۔ درباریوں اور سرکاری کارندوں نے جب دیکھا کہ بادشاہ سلامت اپنی نسلی بھوک مٹانے پر تلے ہوئے ہیں تو انہوں نے اپنی دبی خواہشات کو پورا کرنا شروع کردیا، خزانہ تیزی سے خرچ ہونے لگا، مملکت کی آمدن ختم ہوکر رہ گئی۔


ہمسایہ ملک کو اس صورتحال کا علم ہوا تو وہاں کی حکومت نے فقیر بادشاہ کے ملک پر قبضے کا پروگرام بنایا۔ فوج کو تیاری کا حکم دیا اور کوچ کا اعلان کردیا۔ فقیر بادشاہ کے ملک کی سیکرٹ سروس کے وہ لوگ جو دوسرے ملک میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے، انہوں نے دشمن فوج کی نقل وحرکت کی اطلاعات اپنے دارالحکومت پہنچائیں۔
یہ اس دور کی کہانی ہے جب سیکرٹ سروس والے اپنے ہم وطنوں کی مخبریوں پر ہی توانائیاں صرف نہیں کیا کرتے تھے اور نہ بادشاہوں کو اقتدار سے فارغ کرنے کے لیے عدالتوں کی ضرورت پڑا کرتی تھی۔

فقیر بادشاہ اس وقت اپنی کچن کابینہ کے ساتھ ایک اہم میٹنگ میں کھانے کی اقسام اور تیاری پر بحث کر رہا تھا۔ جب اسے دشمن کے کوچ کی اطلاع ملی تو اس نے آنے والے حالات کو بھانپ لیا اور میٹنگ فوری طور پر منسوخ کردی، صرف شاہی باورچی، کوتوالِ شہر اور وزیر خوراک کو روک لیا، باقی سب لوگوں کو جانے کی اجازت دے دی۔
فقیر بادشاہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

یکایک اس نے شاہی باورچی سے پوچھا دشمن کی کیا اطلاع ہے؟ باورچی نے کوتوالِ شہر کی طرف دیکھا۔ کوتوال نے سیکرٹ سروس کے ذمہ دار کو بلوایا، اس نے ’معلومات کے تبادلے‘ میں ملنے والی اطلاع دی کہ دشمن فوج کوچ کرچکی ہے۔ فقیر بادشاہ نے وزیر خوراک سے پوچھا: گودام میں سوجی ہے؟ وزیر نے جواب دیا؛ جی جہاں پناہ! پھر پوچھا گیا: چینی اور گھی بھی ہے؟ وزیر خوراک نے اثبات میں جواب دیا تو فقیر بادشاہ نے باورچی کو حکم دیا کہ حلوہ بناوٴ۔

باورچی نے حلوہ تیار کیا۔ بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ سب رعایا میں بانٹ دو (وہ بھی کیا دور تھا جب بادشاہ’بندر بانٹ‘ میں بھی رعایا کا خیال رکھا کرتے تھے۔)
اتنے میں سیکرٹ سروس کے اہلکار محل پہنچے اور کوتوال کی وساطت سے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت دشمن کی فوج دارالحکومت کے قریب پہنچ گئی ہے۔ فقیر بادشاہ نے باورچی کی طرف دیکھا اور پوچھا: چینی ہے؟ اس نے جواب دیا: جی بادشاہ سلامت! پھر پوچھا: گھی اور سوجی بھی ہے؟ باورچی نے اثبات میں جواب دیا تو بادشاہ سلامت نے حکم دیا: حلوہ پکاوٴ اور تمام شہر میں تقسیم کرنے کے علاوہ خود بھی کھاوٴ۔

ابھی حلوہ ختم ہی ہوا تھا کہ تابعدار خفیہ ایجنسی کے لوگ پھر بھاگم بھاگ محل پہنچے اور اطلاع دی کہ بادشاہ سلامت اب دشمن کی فوج دارالحکومت کے دروازے تک پہنچ چکی ہے۔ بادشاہ نے شاہی باورچی کی طرف دیکھا۔ باورچی ہاتھ باندھے جان کی امان طلب کررہا تھا۔ فقیر بادشاہ نے پھر چینی، سوجی اور گھی کے متعلق سوال کیا۔ باورچی نے جواب دیا کہ تینوں چیزیں ہیں۔

بادشاہ نے پھر حکم دیا کہ حلوہ بناوٴ۔ باورچی نے حلوہ بنایا۔ بادشاہ نے خفیہ ایجنسی کے ذمہ داروں اور محل میں موجود لوگوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ کوتوال کو حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو رہا کرکے انہیں بھی حلوہ کھلاوٴ اور خود بھی کھاوٴ، فقیر بادشاہ نے بھی حلوہ کھانا شروع کردیا۔ حلوہ ختم ہوتے ہی دسترخوان اٹھا دیا گیا اور بادشاہ سلامت نے شاہی باورچی، وزیر خوراک، کوتوالِ شہر اور خفیہ ایجنسیوں کے ذمہ داروں کو طلب کرلیا، تمام لوگ حیران تھے کہ بادشاہ سلامت نے اتنی اہم اطلاع کا نوٹس نہیں لیا اور اب میٹنگ بلائی تو فوجی سربراہ کو بلایا ہی نہیں۔

وہ بے چارے نہیں جانتے تھے کہ فوج نے کسی غیرملک سے نہ لڑنے کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔
میٹنگ شروع ہوئی ہی تھی کہ محل کے باہر شور سنائی دیا۔ ملک کی وفادار خفیہ ایجنسی کے ذمہ داروں نے آکر اطلاع دی کہ بادشاہ سلامت دشمن کی فوج محل کے دروازے پر کھڑی ہے اور کسی بھی لمحے اندر آنے کو ہے۔ بادشاہ سلامت نے باری باری تمام شرکاء کی طرف دیکھا، پھر مخصوص انداز میں شاہی باورچی سے پوچھا: سوجی ہے؟ باورچی نے جواب دیا: ”جی بادشاہ سلامت۔

“ پھر پوچھا: چینی اور گھی ہے؟ باورچی بولا: بادشاہ سلامت! جی ہاں ہے۔ فقیر بادشاہ کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی، حکم دیا: ”حلوہ بناوٴ“ باورچی نے فوری طور پر حلوہ بنایا۔ اتنی دیر میں دشمن فوج کا سربراہ شاہی دربار میں پہنچ چکا تھا، فقیر بادشاہ اٹھ کر کھڑا ہوا۔ کوتوالِ شہر، وزیر خوراک، خفیہ ایجنسیوں کے ذمہ دار بھی پروٹوکول کے تحت کھڑے ہوگئے۔

فقیر بادشاہ نے شاہی باورچی کو حلوہ لانے کا حکم دیا۔ باورچی کے واپس آنے تک فقیر بادشاہ اپنا سنبھال کر رکھا ہوا کشکول نکال چکا تھا، باورچی سے حلوہ لے کر اس نے اپنا کشکول بھرا، چادر کندھے پر ڈالی اور دشمن فوج کے سربراہ کو سلام کرتا ہوا اسی دروازے کی سمت روانہ ہوگیا، جس دروازے سے ایک دن صبح صبح وہ شہر میں داخل ہوکر بادشاہ بنا تھا۔
قارئین کرام! کہیے کیسی کہانی ہے؟ یہ خیال رہے کہ جن وقتوں کی یہ کہانی ہے تب دشمن ملک کی فوجیں ہی اقتدار پر قبضہ کیا کرتی تھیں اور مقتدرین کی وصیتوں کی بنیاد پر پسماندگان جانشین نہیں بنائے جاتے تھے، اگر کوئی سوجی، چینی اور گھی کو این آر او، مفاہمتی سیاست، غیرملکی اکاوٴنٹس اور سیاسی وجمہوری قربانیوں کی دہائی پڑھنا چاہے تو اپنی ذمہ داری پر پڑھے ،ویسے ہماری طرف سے بھی کوئی پابندی نہیں!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :