ختمِ بخاری کی ایک منفرد تقریب

منگل 26 مارچ 2019

Khalid Imran

خالد عمران

کراچی کو پاکستان کا معاشی مرکز قرار دیا جاتا ہے لیکن اب کراچی فروغِ علمِ دین کا بھی مرکز ہے۔ یہاں سینکڑوں چھوٹے بڑے مدارس میں دین کی تعلیم دی جاتی ہے، جہاں وقت کے جبالِ علم رونق افروز ہیں۔ ناظرہ و حفظِ قرآن اور درسِ نظامی کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے انتظام نے معاشرے میں مدارس کی اہمیت کو دوچند کردیا ہے۔ ہزاروں طلبہ وطالبات ان مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان میں بہت سے ایسے ہیں کہ ریاست جن کا تعلیمی بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔

اللہ نے مدارسِ دینیہ کو یہ توفیق بخشی کہ وہ اہلِ خیر کے تعاون سے یہ ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔دینی مدارس میں یہ دن تعلیمی سال کے اختتام کے ہیں، وفاق المدارس العربیہ کے زیرانتظام 6 اپریل سے سالانہ امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔

(جاری ہے)


 آج کل مدارس میں ختمِ بخاری اور تقسیمِ اسناد وانعامات کی تقاریب ہورہی ہیں، علماء سے سنا ہے کہ ختمِ بخاری کے موقع پر دعائیں قبول اور اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔

یوں تو ہر مدرسے میں اس طرح کی بابرکت وپرانوار تقریب رحمتِ خداوندی کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے لیکن ہمیں آج اس منفرد تقریبِ ختمِ بخاری کا ذکر کرنا ہے جس میں دینی علوم ومعارف سے بہرہ ور رجالِ علم و تقویٰ نے شرکت فرمائی۔
ریحانة الہند، برکت العصر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی رحمة اللہ علیہ کے قائم کردہ معہدالخلیل الاسلامی بہادرآباد میں اتوار 9 رجب 17 مارچ کو ہونے والی ختمِ بخاری وتقسیمِ انعامات واعزازات کی یہ سالانہ تقریب بانیٴ ادارہ کے خلوص وللہیت اور عنداللہ قبولیت کی مظہر تھی۔

اس تقریب کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ایک طرف اگر حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے اجل خلفاء مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع، حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسری بانی جامعہ اشرفیہ لاہور اور حضرت مولانا خیرمحمد جالندھری بانی جامعہ خیرالمدارس ملتان رحمہم اللہ تعالیٰکے علمی ونسبی جانشین حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت شیخ الحدیث مولانا فضل الرحیم اشرفی اور حضرت شیخ الحدیث مولانا قاری محمد حنیف جالندھری رونقِ محفل تھے تو دوسری طرف شیخ العرب والعجم مجاہدِ آزادی حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ کے تلمیذِ رشید حضرت ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی اور فقیہ العصر حضرت والا مفتی رشیداحمد لدھیانوی رحمة اللہ علیہ کے جانشین حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب رئیس جامعة الرشید زینتِ مجلس تھے اور دوسری بات یہ کہ حضرت یحییٰ مدنی رحمة اللہ علیہ کے سات بیٹوں میں سے کوئی ایک بھی خطاب کے لیے مائیک پر نہیں آیا اور نہ ہی ان میں سے کسی کی نشست اسٹیج پر تھی، حالانکہ مہتمم مولانا محمد الیاس مدنی، شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف مدنی، استاذ الحدیث مولانا محمد زکریا مدنی، مولانا مفتی محمد مدنی، مولانا محمد اسماعیل مدنی، مولانا محمد عیسیٰ مدنی اور مولانا خلیل احمد مدنی تمام کے تمام عالم ہی نہیں مدرس بھی ہیں اور پہلے تین بھائیوں کا عرصہٴ تدریس بیس برس سے زیادہ ہے۔

مہمانوں کے استقبال اور اکابر کی آمد پر تمام بھائی جس طرح دیدہ ودل فرش راہ کررہے تھے، وہ ان کے عظیم والد کی تربیت وخلوص کا عکاس تھا۔
اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے صوبائی نائب امیر قاری محمد عثمان، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے امیر مولانا اعجاز مصطفی، جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاوٴن کے مفتی شفیق عارف، وفاق المدارس العربیہ کے میڈیا کوآرڈی نیٹر مولانا طلحہ رحمانی، روزنامہ اسلام کے گروپ ایڈیٹر خلیل الرحمن ، بچوں کا اسلام وخواتین کا اسلام کے مدیر محمد فیصل شہزاد، رکن قومی اسمبلی رحیم اللہ آغا، چیئرمین یونین کونسل جنید مکاتی، جماعت اسلامی کے زاہد سعید سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں شہری موجود تھے۔

نقابت کے فرائض مفتی سلمان یاسین اور مدرسے کے ناظم تعلیمات مولانا وسیم احمد نے انجام دیے۔ تلاوت قرآن پاک کی سعادت قاری محمد رمضان نے حاصل کی، حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ہدیہ نعت فصیح الرحمن نے پیش کیا۔
تقریب کا ایک روح پرور منظر وہ تھا جب حفظ کے استاذ قاری فاروق الحسن نے حفظ کی تکمیل کے لیے کم سن طلبہ کو آخری سبق پڑھایا، قاری فاروق الحسن صاحب کے انداز سے متاثر ہوکر مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے انہیں شاباش دی اور ہدیہ سے بھی نوازا۔


الخلیل حفاظ اسکول کے ذمہ دار جناب شفیق الانعام نے اسکول کی کارکردگی بیان کی اور میٹرک کرنے والے 33 طلبہ کو رئیس دارالافتاء مفتی سعیداحمد اور شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف مدنی نے انعامات اور نشان ہائے امتیاز سے نوازا۔ حفظِ قرآن کی تکمیل کرنے والے طلبہ کی دستاربندی حضرت مفتی عبدالرحیم اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ودیگر اساتذہ نے کی۔

دورہٴ حدیث اور تخصص فی الافتاء کی تکمیل کرنے والے فضلاء کی دستاربندی مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی، مولانا محمد الیاس مدنی، مولانا محمد یوسف مدنی، مولانا محمد زکریا مدنی، مولانا سردار احمد، مولانا مفتی شفیق عارف، مفتی سعیداحمد اور دیگر اساتذہ نے کی۔
 حضرت ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی صاحب اور حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے سادہ مگر پراثرانداز میں جن قیمتی نصائح سے سامعین وحاضرین کو نوازا، یوں لگتا تھا کہ دونوں اکابر کا ہاتھ وقت کی نبض پر ہے۔


حضرت ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی دامت برکاتہم نے سورة الفرقان کی پانچویں آیت کے حوالے سے فرمایا کہ یہ سورة مکی ہے اور اس سے پتا چلتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظامِ تعلیم میں صبح وشام دو وقت میں لکھنا اور پڑھنا سکھایا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنا بھی سکھایا اور لکھنا بھی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب فرما رہے تھے ہمارے مدارس میں آج پڑھنا پڑھانا تو کسی درجے میں ہے لیکن لکھنا لکھانا ہم سے چھوٹ گیا۔

کتابیں پڑھتے پڑھاتے رہتے ہیں، لکھنے کا سلیقہ نہیں، اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ لکھنے کا رواج نہیں، لکھنا نہیں آئے گا تو علوم پھیلیں گے کیسے۔ مکی زندگی میں اس کا اہتمام فرمایا گیا تھا کہ سامان کتابت اور دونوں وقت تعلیم، لکھنا پڑھنا، سورة الفرقان میں اس کا ذکر ہے، مکی زندگی میں ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک اسلام پہنچا دیا گیا، لکھنا پڑھنا دونوں ساتھ ساتھ سکھایا گیا۔

ہمارے ہاں پڑھنا پڑھانا رہ گیا لکھنا کچھ بھی نہیں۔ اس کا اہتمام کریں بچوں کو لکھنا بھی آئے۔ یہ اہم پہلو ہے۔ سامانِ کتابت اور املاء کا اہتمام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قرآن آج صدور (سینوں) میں بھی محفوظ ہے اور سطور میں بھی۔ تربیت اور تعلیم دونوں کا اہتمام فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ کتابت اور تعلیم صبح وشام لکھنا اور پڑھنا۔

قلم، دوات اور کاغذ فراہم کیا جائے طلبہ کو تاکہ لکھنا بھی لازم ہو، اس کی طرف توجہ کریں، یہ بہت ضروری ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ حدیث پاک ”رحم کرنے والوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ رحم فرماتے ہیں،تم زمین والوں پر رحم (شفقت) کرو، آسمان والا تم پر رحم (شفقت) کرے گا۔“ کی اجازت حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے عطاء فرمائی اور فرمایا یہی میری نصیحت ہے، کیونکہ مخلوق پر رحمت اور رحم دلی کا معاملہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اور سنت ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمة للعالمین بنایا گیا، امتی کو بھی رحم کرنے والا بننا ہوگا۔ مسلمانوں پر بھی، اپنے بھائیوں بہنوں، رشتہ داروں اور غیرمسلموں پر بھی رحم کرنے والابننا ہوگا، رحم کے مختلف طریقے ہوتے ہیں، غیرمسلموں اور فساق وفجار کو وہاں سے نکالنا ہوگا، طبیب مریض پر غصہ نہیں کرتا رحم کرتا ہے، مسلمان کو، طالب علم کو، عالم کو ساری دنیا کے لیے رحم کا جذبہ رکھنا چاہیے۔

اپنے آپ کو پورے عالم کے لیے رحمت کا مظہر بنائیں۔ اس کے بعد آپ نے نکاح پڑھائے۔ اس موقع پر مولانا مفتی محمد مدنی کی بچی کا نکاح بھی پڑھایا گیا۔ خود مولانا مفتی محمد مدنی کے نکاح میں بھی ہمیں شرکت کا موقع ملا تھا۔ یہ 1998ء کی بات ہے، تب حضرت مولانا سحبان محمود رحمة اللہ علیہ نے یہاں ختمِ بخاری کے موقع پر خطاب فرمایا تھا اور مولانا یحییٰ مدنی رحمة اللہ علیہ نے نکاح پڑھائے تھے۔


دارالعلوم کراچی کے استاذ الحدیث حضرت مولانا عزیز الرحمن اس تقریب کے پہلے مقرر تھے۔ انہوں نے کہا سب سے بڑی دولت اسلام ہے، دیگر مذاہب میں اب صرف داستانیں ، قصے کہانیاں، روایات اور رسومات باقی رہ گئی ہیں۔ اسلام میں پوری زندگی کے طریقے اور ان کی تفصیلات موجود ہیں، عقائد، منظم عبادات، معاملات کے لیے ہدایات ہیں۔ قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت معاملات کے متعلق ہے، معاشرت، اخلاقی کردار، انسانوں کے حقوق وفرائض حتیٰ کہ جانوروں کے حقوق بھی اسلام بتاتا ہے، اخلاق ظاہری وباطنی کے متعلق مفصل ہدایات دیتا ہے۔

سب شعبہ جات مکلف ہیں دین اختیار کرنے کے، دین کی قدر بطور نعمت کریں۔ قرآن کے چار حق ہیں۔ تلاوت، سمجھ، عمل اور دنیا کو دعوت۔ ان حقوق کو ادا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم مدارس سے فائدہ اٹھائیں، کھلے دل کے ساتھ ان سے تعاون کریں، بچوں کو مدارس میں بھیج کر آپ کچھ کھوئیں گے نہیں، یہ فرمانبردار ہوں گے، آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنیں گے، دعائے مغفرت کریں گے، دنیا کا سامان اور آخرت کا ذخیرہ ہوں گے۔

طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ فراغت کے بعد ذمہ داری کا احساس کریں، تعلیمی مرحلہ (بظاہر) مکمل ہورہا ہے تو دوسرے مرحلے معاشرے کی اصلاح کے لیے تیار ہوں اور معاشرے کو فائدہ پہنچائیں۔
اس پروقار تقریب میں حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی خطابت نے سماں باندھ دیا۔ انٹرنیٹ اور یوٹیوب مقررین اور واعظین کے دور میں وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ نے ماضی کے خطباء کی یاد تازہ کردی۔

اللہ نے قاری صاحب کو بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے۔ اس کٹھن اور پرفتن دور میں مدارس کی وکالت، جامعہ خیرالمدارس میں اہتمام اور تدریس کے فرائض، پورے ملک میں دینی اجتماعات سے خطابات، پھر میڈیا سے نمٹنا اللہ قاری صاحب کو نظربد سے بچائے۔ جالندھری صاحب نے جہاں علمی اور عوامی انداز میں تقریر کی رونق بڑھائی، وہیں موجودہ حکومت کے یکساں نصابِ تعلیم کے ارادوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے انہوں نے کہا مدارس کے اجتماعات دینی، روحانی اور تربیتی ہوتے ہیں، رسمی نہیں۔

مدارس کا نظامِ تعلیم قوم کو ایک کرتا ہے، متحد کرتا ہے، کراچی سے پشاور اور گلگت سے گوادر تک مدارس میں آنے والے ہر امیر غریب بچے کو بلاتفریق رنگ ونسل اور زبان یکساں نصاب کے تحت تعلیم دی جاتی ہے، جبکہ ایک گلی محلے میں کھلے ہوئے عصری تعلیمی اداروں کا نصاب الگ الگ ہے، کہیں انگریزی میڈیم ہے تو کہیں اردو میڈیم، کہیں سرکاری نصاب ہے، کہیں آکسفورڈکا، کہیں کیمبرج کا، کہیں آغاخان بورڈ کا، کہیں برٹش نظامِ تعلیم ہے تو کہیں امریکن طرزِ تعلیم۔


انہوں نے کہا حکومت نے اسکولوں اور مدارس کا نصابِ تعلیم ایک کرنے کی بات کی، وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم مدارس والے یکساں نصابِ تعلیم کی مخالفت کریں گے، ہم نے کہا ہم تو خود چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں میٹرک تک نصابِ تعلیم ایک ہو۔ مدارس کا نصاب قوم کو متحد کرتا ہے جبکہ عصری نصابِ تعلیم قوم کو تقسیم کرتا ہے۔ پورے ملک میں نصاب ایک ہو، جس میں عقل اور وحی کی روشنی ہو، عقل اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے لیکن اس کو سیدھا رکھنے کے لیے وحی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے، وحی کی روشنی میں چلنے والی عقل ہی نعمت ہے اور یہی عقلِ سلیم ہوتی ہے۔

وحی سے محروم عقل شیطانی ہوتی ہے۔ عقل سلیم کیسے بنے، یہ دین بتاتا ہے، مدرسہ سکھاتا ہے۔ آج ہمیں مغربی فکر کا چیلنج درپیش ہے کہ انسان محض عقل کے مطابق زندگی گزارے۔ مدرسے نے عقل کو شریعت اور وحی کے تابع رکھنے کا چیلنج قبول کیا۔ سرسید مرحوم نے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کو لکھا تھا کہ حضرت اسلام کی کوئی بات عقل کے خلاف نہیں ہونی چاہیے، حضرت نانوتوی نے جواب لکھا عقل کی کوئی بات اسلام کے خلاف نہیں ہونی چاہیے۔

ہم تیار ہیں، حکومت ہمت کرے اور نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کو ایک کرے، مدارس کا پیغام یہی ہے کہ عقل کی روشنی کو وحی کی روشنی سے ملاوٴ۔
جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم وشیخ الحدیث حضرت مولانا فضل الرحیم اشرفی نے دلنشیں اور شیریں لب ولہجے میں بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیا۔ انہوں نے دورہٴ حدیث سے فارغ ہونے والے فضلاء وفاضلات اور تمام سامعین وحاضرین کو انتہائی رقت آمیز انداز میں نصیحت فرمائی کہ امام بخاری رحمہ اللہ آغاز میں جو حدیث لائے ہیں ”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے“ اس کو ہمیشہ یاد رکھیں اور ریاکاری سے بچیں۔

اللہ نے آپ کو اس قدر سعادت دی کہ بیس بائیس کروڑ میں سے آپ کو چنا۔ ہمیں اپنا چناوٴ درست ثابت کرنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ڈیوٹی لگائی ان احادیث کو آگے پہنچانا ہے۔ میرا تعلق معہدالخلیل سے بہت پرانا ہے، خوشی ہورہی ہے کہ حفاظ، درس نظامی، دراسات اور اسکول سے 168 طلبہ وطالبات فارغ ہورہے ہیں۔ میری نصیحت ہے کہ آپ اس حدیث پاک کو حرزِجاں بنائیں کہ اے اللہ میں سوال کرتا ہوں نافع (کارآمد) علم کا، رزق واسع کا، حلال کا، کشادہ روزی کا، ہر بیماری سے شفا، جسمانی اور روحانی وباطنی بیماریوں سے۔

سب سے بڑی بات اس دورہٴ حدیث سے فارغ ہوکر وہم بھی نہ کرنا کہ میں عالم، فاضل، جنت کا ٹھیکے دار ہوں، خدا کے لیے اپنے باطن کی اصلاح کے لیے کسی نہ کسی کو شیخ بناکر اپنا اصلاحی تعلق قائم کریں، پھر دیکھیے گا علم کا نور اجاگر ہوگا ۔ انہوں نے حضرت حکیم الامت، سیدسلمان ندوی اور اپنے والد گرامی مفتی محمد حسن امرتسری رحمہم اللہ کے واقعات سنائے اور بتایا کہ 1943ء میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے علماء وطلباء کے لیے اصلاحی تعلق کو فرض عین قرار دیا ہے لہٰذا تمام احباب اپنا تعلق اسی سے قائم کرلیں۔

دین محبت سے آتا ہے، ضابطے کا دین کتابوں سے آتا ہے اور حقیقی دین کسی کی جوتیاں سیدھی کیے بغیر نہیں آتا۔ تادیر یاد رہنے والی اس پروقار اور بابرکت تقریب کا اختتام حضرت مولانا فضل الرحیم اشرفی دامت برکاتہم کی رقت آمیز دعا پر ہوا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :