
3 مارچ کے بعد کیا ہوگا؟
بدھ 17 فروری 2021

خالد عمران
مولانا فضل الرحمن کے سوا دیگر بڑے تو ایڈجسٹ کردیے گئے، مولانا مگر سراپا احتجاج بن گئے۔ انہوں نے ملک بھر میں درجن سے زائد ملین مارچ کیے اور پھر آزادی مارچ کے عنوان سے احتجاج کیا اور اپنے کارکنوں کا لہو مسلسل گرمائے رکھا۔
(جاری ہے)
مولانا مفتی محمودرحمة اللہ علیہ کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اپنی سیاست کا آغاز جس تحریکی اور احتجاجی ماحول میں کیا تھا، 2020ء میں ان کو دست یاب سیاسی پود اور ذرائع ابلاغ کے اکثر بزرجمہر تو اس سے ناواقف تھے ہی، قوم بھی اس کو بھلا بیٹھی ۔ کہاں نواب زادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، علامہ احسان الٰہی ظہیر، ملک محمد قاسم، رسول بخش پلیجو، غلام مصطفی جتوئی، ایئرمارشل اصغرخان، پروفیسر عبدالغفوراحمد، فتح یاب علی خان اور بے نظیر بھٹو جیسی سیاسی شخصیات اور کہاں …… خیر چھوڑیے وقت وقت کی بات ہے۔ بہرحال گزشتہ ڈھائی برس میں حکومت کو تو چھوڑیے اپوزیشن نے بھی سیاسی اخلاقیات، فراست اور روایات کا پاس نہیں کیا۔ پاکستان میں سیاست کو گندگی اور سیاست داں کو گالی بنانے والوں نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے تمام حدیں عبور کرلیں۔ ان حالات میں مولانا کو اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے کئی کڑوے گھونٹ پیناپڑے۔
ناقدین کے مطابق پی ڈی ایم نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بتائے گئے اہداف میں سے کوئی ایک بھی حاصل نہیں کیا۔ استعفوں، لانگ مارچ اور عدم اعتماد سے چلتے چلتے بات ضمنی انتخابات میں حصہ لینے اور اب سینیٹ الیکشن کی تیاریاں تیز کرکے حکومتی ہتھکنڈے ناکام بنانے پر آپہنچی۔
جہاں تک سینیٹ انتخابات کا تعلق ہے تو الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق 3 مارچ کو منتخب ہونے والے 48 ارکان کی مدت 6 برس ہوگی۔ ان نشستوں کے لیے 170 امیدوار میدان میں آچکے ہیں۔ پنجاب میں 11 نشستوں کے لیے 29، سندھ میں 11 نشستوں کے لیے 39، کے پی کے میں 12 نشستوں کے لیے 51، بلوچستان میں 12 نشستوں کے لیے 41اور اسلام آباد میں 2 نشستوں کے لیے 10 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اور اس کے اتحادیوں میں ٹکٹوں کے معاملے پر کافی تنازعات نے جنم لیا ہے۔ تحریکِ انصاف کو جہاں اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنا ہے، وہاں سندھ میں ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان میں ”باپ“ کو بھی راضی رکھنا ہے۔ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں جو ہوگا سو ہوگا، اصل سیاسی معرکہ مگر اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل سیٹ پر ہونے والے انتخاب کو قرار دیا جارہا ہے۔ اس نشست کیلئے حکومت نے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کو میدان میں اتارا ہے جبکہ پی ڈی ایم کی طرف سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی متفقہ امیدوار اس شان سے ہوئے کہ دو سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی اور راجا پرویزاشرف ان کے تایید وتجویز کنندہ ٹھہرے۔
بہت سے سیاسی پنڈت گیلانی صاحب کے میدان میں اترنے پر دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں، کوئی ان کے تعلقات کے بارے بتا رہا ہے تو کوئی ان کی رشتہ داریوں کی تفصیلات بیان کررہا ہے۔ کسی نے ان کی ”سب“ سے بنا کر رکھنے کی خصوصیت نمایاں کی ہے تو کوئی یاد کرا رہا ہے کہ گیلانی صاحب کو بطور وزیراعظم پوری قومی اسمبلی نے اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ اور کوئی ان کی جوڑتوڑ کی صلاحیت کا ڈنکا بجا رہا ہے۔ غرض حفیظ شیخ کے مقابلے میں انہیں ایک زبردست حریف قرار دیا جارہا ہے۔
صورت یہ بنتی ہے کہ اگر گیلانی صاحب حفیظ شیخ صاحب کو ہرانے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ ایک طرح وزیراعظم پر عدم اعتماد ہوگا۔ اس لیے کہ وہ قومی اسمبلی جہاں عمران خان اور ان کے اتحادیوں کو اکثریت حاصل ہے، وہاں سے ان کا امیدوار، جسے سینیٹر منتخب ہوکر وزیر خزانہ بننا ہے، ہار جائے۔ اب یہ 1985ء تو ہے نہیں کہ غیرجماعتی قومی اسمبلی میں جرنیلی امیدوار خواجہ صفدر کے مقابلے میں آزاد پارلیمانی گروپ کے فخرامام جیت جائیں۔
3 مارچ تک تو اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم سینیٹ کے الیکشن میں مصروف رہے گی اور 3 مارچ کے بعد کیا ہوگا انور چراغ کا کہنا ہے کہ 4 مارچ ہوگا۔ وہ تو خیر ہوگا ہی، لیکن اگلے چھ سال تک منتخب ہونے والے 48 ارکان، ایوان بالا میں پہلے سے موجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر چیئرمین وڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ تب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے پی ڈی ایم کا امید وار کون ہوگا، اس کے لیے بھی شاید زرداری صاحب اور میاں صاحب کاکسی نہ کسی پر” اتفاق“ کرا لیا جائے اور یوں پی ڈی ایم ایک بار پھرمتفقہ امیدوار لے آئے گی، لیکن وہ اپوزیشن جو 64 ارکان کی موجودی میں اپنی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ کروا سکی، وہ اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیسے بنا پائے گی؟ البتہ یہ ضرور ہوگا کہ ”ناجائز اور جعلی اسمبلیوں“ کے ذریعے منتخب ہونے والے ارکان کی بدولت حکومت کو قومی اسمبلی کے بعد پارلیمان کے ایوان بالا میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ اور 1973ء کے آئین کے تناظر میں ووٹ کو عزت دینے کے لیے کی جانے والی جدوجہد یوں جاری رہے گی کہ زرداری نواز اتفاق کی بدولت پی ڈی ایم شاید ان ہاوٴس تبدیلی کی طرف نکل کھڑی ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
خالد عمران کے کالمز
-
ایں خیال است و محال است وجنوں!
پیر 29 مارچ 2021
-
حلوہ کہانی
ہفتہ 20 مارچ 2021
-
دو مجبور اور بے بس سربراہ
ہفتہ 13 مارچ 2021
-
ہائی مورل گراوٴنڈ
ہفتہ 6 مارچ 2021
-
3 مارچ کے بعد کیا ہوگا؟
بدھ 17 فروری 2021
-
ختمِ بخاری کی ایک منفرد تقریب
منگل 26 مارچ 2019
-
پی ٹی آئی کا ڈی این اے اور ایک سوال
اتوار 10 مارچ 2019
-
بنامِ جمہوریت وبقائے پارلیمانی نظام
اتوار 17 فروری 2019
خالد عمران کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.