پی ٹی آئی کا ڈی این اے اور ایک سوال

اتوار 10 مارچ 2019

Khalid Imran

خالد عمران

ہندو نسل پرست بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے اپنی انتخابی مہم کے لیے جنگ کے جو بادل برسانا چاہتے تھے، وہ تو چھٹ گئے لیکن چھٹتے چھٹتے فیاض الحسن چوہان کی وزارت لے گئے اور فواد چودھری کی وزارت فی الحال بچا گئے۔
کہتے ہیں کہ جنگ کے میدان میں سب سے پہلے سچائی ماری جاتی ہے۔ فیاض الحسن چوہان کا تمام سیاسی اثاثہ مخالفین کے متعلق نازیبا گفتگو ہے۔

شیخ رشید سے لے کر نوازشریف اور زرداری سے لے کر مولانا فضل الرحمن تک کوئی ان کی ”زبان دانی“ سے بچ نہ سکا لیکن جونہی انہوں نے سچی بات کی، وزارت چھن گئی۔ انورچراغ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں وزارت مشاورت میں رہنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ سچ سے مکمل پرہیز اور دروغ گوئی بے دریغ کے فارمولے پر عمل کرے۔

(جاری ہے)

دیکھ لیں جونہی فیاض الحسن چوہان نے سچ بولا وزارت سے چھٹی ہوگئی۔

اسی طرح فواد چودھری نے جب سے بنی گالا میں سکونت پذیر وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور نعیم الحق کے متعلق سچ بولا، چودھری صاحب کو اپنی وزارت کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف فیصل واوٴڈا دیکھ لیں، کیسے وزارت میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ بابراعوان، اعظم سواتی، عبدالعلیم خان اور فیاض الحسن چوہان کپتان کی حکومتی ٹیم سے نکل چکے ہیں، فواد حسین چودھری کا نمبر سنا ہے لگنے والا تھا لیکن فی الحال مودی کی مہم جوئی نے بچا لیا، اب بھی سنا ہے جی کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا یا شام گیا۔


اطلاعات کے مطابق یہ سلسلہ صرف فواد چودھری پر رکنے والا نہیں اور بھی کئی وزیرمشیر ”سچ“ اور ”احتساب“ کی بھینٹ چڑھنے والے ہیں۔
ہم نے بارہا عرض کیا کہ پاکستان کو درپیش تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں، اگر سیاست ٹھیک ہوجائے اور سیاست ٹھیک ہوگی سیاست دانوں کے ٹھیک ہونے سے۔ بدقسمتی مگر یہ کہ آج کے سیاست دان وہ ہیں جو بے چارے اتنی ہی سیاست جانتے ہیں جتنی سینیٹر عبدالرحمن ملک کو سورة کوثر آتی ہے۔

حالیہ بھارتی جارحیت کے خلاف قومی یکجہتی کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تو حزب اختلاف کی طرف سے مثبت رویے کے باوجود حزب اقتدار اور بالخصوص وزیراعظم نے اپنے طرزِعمل سے قومی یکجہتی اور خیرسگالی کے غبارے سے ہوا نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن تابہ کے!
ملکی مسائل کو حل کرنے اور ہمہ جہت بحرانوں سے نکلنے کے لیے حکومت اور خصوصاً وزیراعظم کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔

سرپرستوں نے اب تک پی ٹی آئی کی حکومت کو ہر مشکل موقع پر جس انداز میں سہارا فراہم کیا ہے، اس کی وجہ سے حکومت کا تادیر چلنا کوئی اچھنبے کی بات تو نہیں ہوگی لیکن آخرکار حکومت کو حزب اختلاف اور پارلیمان کو اہمیت دینا پڑے گی۔
 بہت سے مسائل اور بحران ایسے ہیں جن سے نمٹنا سخت جان عوامی نمایندوں اور سیاست کاروں کا ہی کام ہوتا ہے۔ حکومت کو اس کا احساس ہونا شروع ہوگیا ہے یا پھر ”کچھ کام“ نکلوانے کے لیے جمعرات کو وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس کا پتا جلد چل جائے گا، اس ضمن میں وزیراعظم کی نوازشریف کو بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی کی ہدایت اور فواد چودھری کا یہ کہنا کہ ہمارا کوئی انتقامی رویہ ہے نہ نوازشریف سے کوئی ذاتی دشمنی، بتا رہا ہے کہ ہیں کوئی دوچار مشکل کام بغیر اپوزیشن کی مدد کے جن سے نہیں نکلا جاسکتا۔


 خواہ مخوا کی محاذآرائی اور پنجابی محاورے کے مطابق جاتی بلا کو گھر بلانا تو شاید پی ٹی آئی کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ جس دن وفاقی کابینہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کررہی تھی، اسی دن سندھ اسمبلی میں اپوزیشن تحریک انصاف کے ارکان اپوزیشن بنچوں پر ہی بیٹھنے والے متحدہ مجلس عمل کے سید عبدالرشید پر تھپڑوں کی بارش کررہے تھے، سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اتحادی ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے ارکان بھی فردوس شمیم نقوی کی قیادت میں سکون محسوس نہیں کررہے۔

ایم کیو ایم تو نستعلیق انداز میں متعدد بار اپنے اضطراب کا اظہار کرچکی ہے۔ آصف علی زرداری کے سسرالی رشتے دار سردار ممتازعلی بھٹو کے فرزند سردار امیربخش بھٹو کو جس طرح پی ٹی آئی سندھ کی صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا، اس سے بھی پی ٹی آئی قیادت کی سیاست کاری آشکار ہوئی۔ سردار امیربخش کے استعفے کا ذمے دار خرم شیرزمان اور حلیم عادل شیخ کو ٹھہرایا جارہا ہے۔


بلوچستان میں ”باپ“ کو بھی آئے دن مرکزی حکومت سے شکایات رہتی ہیں۔ وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی چودھریوں کی ق لیگ کے کچھ مسائل تو حل ہوگئے ہیں لیکن ڈیرے داری کے آداب سے ناآشنا پی ٹی آئی چودھری برادران سے جو سلوک کررہی ہے وقت آنے پر وزیراعظم کو اس کا حساب بھی دینا پڑے گا۔ جب بڑے چودھری صاحب کو بنی گالا جاکر محض نعیم الحق صاحب سے ملاقات پر اکتفا کرنا پڑے اور پھر اس ملاقات کی خبریں جس انداز میں نشر وشایع کروائی گئیں اس پر بڑے چودھری صاحب فی الحال تو ”مٹی پاوٴ“ فارمولا استعمال کرسکتے ہیں لیکن کبھی تو یہ مٹی جھاڑنے کا وقت آئے گا۔


ان حالات میں سرپرستوں کی مہربانیاں اور شفقتیں اپنی جگہ لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کو اپوزیشن اور پارلیمان کے متعلق اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ غیرسیاسی غیرلچکدار طرزعمل سے حکمرانی ایک مشکل ترین کام ہے۔ کسی سیانے نے کہا تھا مذہبی کارکن سمجھوتا کرلے تو اس کی موت ہے اور سیاسی کارکن سمجھوتا نہ کرے تو اس کی موت ہے۔
اس انداز سے جو نقصان پی ٹی آئی یا وزیراعظم کو ہوگا سو ہوگا لیکن ملک وقوم حتیٰ کہ موجودہ حکومت کے سرپرست بھی زیادہ دیر اس کا تحمل نہیں کرسکتے۔

پاکستان کو صرف مشرقی سرحد سے ہی خطرہ نہیں بلکہ اندرونی اور بیرونی کئی طرف سے، محض حکومتی رویے نے بہت سے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ آخر میں، پاکستان پر بھارتی حملے کی منصوبہ بندی میں ”تیسرے ملک“ کے شامل ہونے کی سرگوشیوں میں ایک سوال کہ یہ اپنے وزیر ریلوے شیخ رشیداحمد صاحب تہران کیا کہنے گئے تھے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :