ایں خیال است و محال است وجنوں!

پیر 29 مارچ 2021

Khalid Imran

خالد عمران

پی ڈی ایم کے 26 مارچ کے لانگ مارچ کو ملتوی ہی ہونا تھا، صرف اس لیے نہیں کہ پیپلزپارٹی استعفے دینے کو تیار نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ 26 مارچ کو کراچی سے شروع ہوکر 30 مارچ کو اسلام آباد پہنچنے والے اس لانگ مارچ کا اعلان تو کردیا گیا تھا لیکن اتنی بڑی ملک گیر سیاسی سرگرمی میں عوام کی بھرپور شرکت کے لیے جس طرح کی تیاری کی ضرورت تھی اس پر غالباً سوچ بچار نہیں کیا گیا تھا۔

جنوری کے اختتام سے ہی مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات نے تمام سیاسی سرگرمیوں کو عملاً معطل کرکے رکھ دیا تھا، بالخصوص سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کی اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل سیٹ پر نامزدگی اور پھر پی ڈی ایم کی طرف سے ان کو متفقہ امیدوار بنائے جانے کے بعد 3 مارچ تک ملکی سیاست سینیٹ انتخابات کے گرد گھومتی رہی۔

(جاری ہے)

پی ڈی ایم کے امیدوار کی جیت اور وفاقی وزیرخزانہ کی شکست کے بعد 12 مارچ کو ہونے والا چیئرمین وڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب حکومت اور اپوزیشن کی سیاست کا مرکز ومحور بن گیا تاآں کہ 12 مارچ کو حکومتی امیدوار برائے چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی اور امیدوار برائے ڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی کے ہاتھوں ان کے مدمقابل سید یوسف رضاگیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کے ساتھ وہی کچھ کروا دیا گیا جو 3 مارچ کو سید یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں عبدالحفیظ شیخ کے ساتھ کروایا گیا تھا۔


12 مارچ کی شکست کے بعد منگل 16 مارچ کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں جو کچھ ہوا، اس کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمن اپنی سیاسی زندگی کی مختصرترین پریس بریفنگ میں 26مارچ کے لانگ مارچ کے التواء کا اعلان کرکے چلے گئے۔ مولانا کے بقول پیپلزپارٹی نے استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم کی باقی 9 جماعتوں سے اتفاق کرنے کی بجائے اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے رجوع کرنے کی مہلت مانگی جو اسے دے دی گئی۔

اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 4 اپریل کو ہورہا ہے، اس کے بعد ہی وہ پی ڈی ایم کو کوئی جواب دے گی۔ انور چراغ کا کہنا ہے کہ پی پی کی طرف سے پی ڈی ایم کو” جواب“ ہی ملے گا۔
پیپلزپارٹی اب پی ڈی ایم میں رہے یا نہ رہے عید سے پہلے کسی بڑی سیاسی سرگرمی کا امکان نہیں۔ 26 مارچ کو مریم نواز کی نیب میں پیشی کے التواء کے بعد لگ رہا تھا کہ اب کوئی بڑی سرگرمی نہیں ہوگی لیکن 26 مارچ بروز جمعہ سید یوسف رضاگیلانی پیپلزپارٹی کے 21، اے این پی کے 2، جماعت اسلامی کے ایک، سابق فاٹا کے 2 اور سینیٹر دلاورخان کے بنائے گئے آزاد گروپ کے 4 ارکان کی حمایت کے ساتھ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔

یوں مارچ کا مہینہ جاتے جاتے ستمبر 2020ء میں بننے والے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں بڑی گہری دراڑ ڈال گیا۔ اپریل کی چودہ پندرہ سے رمضان شروع ہوجائے گا۔ پھر عید کے بعد نئے سرے سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوگا۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ عید کے بعد تازہ دم ہوکر اسلام آباد کا رخ کریں گے۔
پاکستانی سیاست وصحافت کے ہم جیسے ادنیٰ طالب علم بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں رمضان کے بعد محرم تک کوئی بڑی سیاسی تحریک عموماً بپا نہیں ہوتی اور تحریکوں کے لیے سازگار موسم فروری، مارچ، اپریل ہوتا ہے۔

مئی اور جون کی گرمی میں کوئی تحریک اس وقت چلتی ہے جب رہنما اور کارکن نہ صرف ہم آہنگ ہوں بلکہ ان کے جذبات کی حدت موسم کی شدت پر حاوی ہوجائے ۔ اور پھر جولائی اگست ستمبر نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ 1974ء کی تحریکِ تحفظ ختم نبوت 29 مئی کو شروع ہوئی اور 7 ستمبر کو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ تحریک نظام مصطفی 1977ء کے 7مارچ سے شروع ہوئی، حکومت اور قومی اتحاد میں مذاکرات کا آغاز جون میں ہوا۔

لوگ جیلوں میں تھے اور قائدین مذاکرات میں مصروف کہ جنرل ضیاء صاحب نے 5جولائی کردیا۔ مارچ 2007ء کی 9 تاریخ کو صدر جنرل پرویزمشرف نے چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کو معزول کیا تو وکلاء کی تحریک شروع ہوئی۔ جولائی میں عدلیہ نے افتخارمحمد چودھری کو بحال کردیا۔ 3 نومبر 2007ء کو جنرل پرویزمشرف نے ایمرجنسی پلس کے ذریعے افتخارمحمد چودھری سمیت متعدد ججوں کو برطرف کردیا۔

27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو قتل کردی گئیں۔ 9مارچ 2008ء کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے لاہور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے گجرانوالہ پہنچنے پر افتخارمحمد چودھری سمیت تمام ججوں کو بحال کردیا۔
17 اگست 1988ء کو صدر جنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثہ کے بعد بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی دو دو مرتبہ بننے والی حکومتیں اکتوبر نومبر دسمبر میں توڑی جاتی رہیں۔


ہر تحریک کی ابتداء میں یہی لگتا کہ حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ مشہور ہے نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم اپنے دفتر سے کالی شیروانی پہن کر نکلتے، مختلف الخیال سیاسی قائدین کو ساتھ لے کر تحریک کا آغاز کرتے۔ ”جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا“ کا ورد شروع کرتے ،باغ بیرون موچی دروازہ لاہور، لیاقت باغ راولپنڈی، شاہی باغ پشاور، جناح پارک کوئٹہ، نشتر پارک کراچی، اقبال پارک فیصل آباد اور قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان کی جلسہ گاہوں میں اور ریلیوں جلوسوں میں عوام کو اپنے ساتھ ہم آہنگ کرتے، بالآخر حکومت وقت کی رخصتی کرواکر واپس اپنے دفتر 32 نکلسن روڈ لاہور پہنچ جاتے۔


لیکن اب وقت بدل گیا ہے، سیاسی اخلاقیات، اقدار اور روایات ختم نہیں بلکہ پامال کردی گئیں۔ ایک دوسرے کے لحاظ کی جگہ اپنے اپنے مفادات پہلی ترجیح ہوگئے۔ سیاسی آبلہ پائی گئے وقتوں کی بات ٹھہری۔ اب لیڈر اپنے سیاسی نظریات واقدار اور روایات کی پاسداری کی بجائے کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور قبضہ گیری کے الزامات کی بنا پر جیل جاتے ہیں، اگلے وقتوں میں لوگ سیاست کرتے تھے، اپنا مال خرچ کرکے، زمینیں بیچ کر نظریاتی کارکنوں کے ساتھ مل کر، اب سیاست کا مقصد ملک اور بیرون ملک اپنی جائیدادیں بڑھانا، مال لگاکر مال کمانا بن چکا ہے۔

سیاسی ونظریاتی کارکنوں کی بجائے ذاتی ملازم ہیں، جو سیاست کے ذریعے حاصل ہونے والے وسائل میں اپنے حصے کی خاطر زندہ باد مردہ باد کرتے ہیں اور اپنے لیڈر میں کسی انسانی خامی کو بھی ماننے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔
سیاسی سسٹم ایسا بنا دیا گیا ہے کہ ایک بار کسی نہ کسی طرح جو ایوانوں کے اندر پہنچ جائے وہ چاہے حزب اقتدار میں ہو یا حزب اختلاف میں، بطور رکن قومی وصوبائی اسمبلی اور سینیٹ اور پھر قائمہ کمیٹیوں کی رکنیت، سربراہی اور وزارتیں ومشاورتیں ہیں۔

غرض اسے ریاستی وسائل سے متمتع ہونے کے بھرپور مواقع ملتے ہیں۔ مال بنانے کے دیگر طریقے عوامی نمایندوں کو افسر شاہی سکھا دیتی ہے لہٰذا اب کہاں کے اصول کہاں کے نظریات، کہاں کی قانون سازی۔
ان حالات میں قومی وصوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں کل ملاکر تقریباً45 نشستوں کی حامل جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے ذریعے دینی ونظریاتی بنیادوں پر کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو ان کی خواہش کی کامیابی کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے لیکن انور چراغ کا کہنا ہے کہ ایں خیال است و محال است وجنوں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :