دو مجبور اور بے بس سربراہ

ہفتہ 13 مارچ 2021

Khalid Imran

خالد عمران

12 مارچ بروز جمعہ کو پارلیمان کے ایوان بالا کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب عمل میں آچکا ہے۔ یہاں مگر 3 مارچ کی طرح کوئی ”انہونی“نہیں ہوئی۔ 7 کے ہندسے نے البتہ اپنا آپ خوب دکھایا، سینیٹر سید یوسف رضاگیلانی کے 7 ووٹ مسترد ہوئے اور سینیٹر محمد صادق سنجرانی کو 7 ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی۔ بدھ 3 مارچ کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے 7 ووٹ مسترد ہوئے تھے اور سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو 5 ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی تھی۔


7مارچ1977ء کو بھی قومی اسمبلی کے الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی کو ”فتح“ حاصل ہوئی تھی، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔
آگے چلنے سے پہلے ایک ضروری تصحیح۔ گزشتہ اتوار کو شایع ہونے والے کالم ’ہائی مورل گراوٴنڈ‘میں لکھا گیا ” اگست 2018ء میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر 64 ارکان میرحاصل خان بزنجو مرحوم کو ووٹ دینے کے لیے راجا ظفرالحق کے پیچھے کھڑے تھے لیکن خفیہ رائے شماری کے بعد نتیجہ آیا تو میر حاصل بزنجو صادق سنجرانی سے ہار چکے تھے۔

(جاری ہے)

سنجرانی صاحب پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار تھے۔ “ یہ درست نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ 12 مارچ 2018ء کو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں مسلم لیگ ن کے راجا ظفرالحق کے مقابلے میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ودیگر جماعتوں کے مشترکہ امیدوار صادق سنجرانی بنائے گئے تھے۔ ایم کیو ایم کے 5 ارکان نے بائیکاٹ کیا تھا، اس وقت فاٹا کے 7 ارکان بھی سینیٹ میں موجود تھے۔

راجا ظفرالحق صاحب نے 46 اور میر صادق سنجرانی صاحب نے 57 ووٹ لیے تھے۔ پھر مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی ، جے یو آئی اور دیگر جماعتوں نے سنجرانی صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی، ن لیگ اور اتحادیوں نے میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد کیا تھا، اس وقت قائد حزب اختلاف سینیٹر راجا ظفرالحق صاحب کے پیچھے 64 ارکان کھڑے تھے لیکن جب خفیہ ووٹنگ کا مرحلہ آیا تو 16 ارکان کا ضمیر جاگ چکا تھا اور یوں سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوئی۔

ریکارڈ کی درستی کے لیے یہ تصحیح ضرور تھی۔
3مارچ کو سینیٹ کے انتخاب کے بعد 12 مارچ کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا مرحلہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ 3 مارچ کو قومی اسمبلی کے ایوان میں خفیہ ووٹنگ کا جو طریقہ حکومت کے لیے زہر اور پی ڈی ایم کے لیے شہد تھا، 12 مارچ کو سینیٹ میں وہی طریقہ پی ڈی ایم کے لیے زہر اور حکومت کے لیے شہد بن چکا تھا۔

مسترد ہونے والے 7 ووٹوں کے متعلق ماہرین کی رائے بھی مختلف ہے۔ ان ووٹوں میں مہر سید یوسف رضاگیلانی کے نام کے اوپر لگی ہوئی ہے۔ کچھ کے خیال میں یہ ووٹ مسترد کرنے کی بجائے سینیٹر یوسف رضاگیلانی کے حق میں گنے جانے چاہئیں تھے، جبکہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اس بارے میں عدالت جانے کی بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 7 ووٹ ناجائز مسترد ہوئے، الیکشن ہم جیتے، ووٹ مسترد ہونے پر ہمارے ارکان کے حوصلے پست ہوئے۔

ورنہ غفور حیدری بھی جیت جاتے۔ انور چراغ کا کہنا ہے کہ حوصلوں کی اس پستی پر دادکے اصل حق دار کی نشاں دہی کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور ارشاد کا موقف ہے کہ نام پر مہر سے ووٹ مسترد کرنا نہیں بنتا، اب فیصلہ عدالت کرے گی۔ یوسف رضاگیلانی کے پولنگ ایجنٹ اور ماہر قانون فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ نام پر مہر ٹھیک ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی کہتے ہیں کہ سیکریٹری سینیٹ نے مجھے فاروق نائیک اور شیری رحمن کو کہا کہ نام کے اوپر بھی مہر ٹھیک ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پارلیمانی امور اور پیپلزپارٹی کے دور میں وفاقی وزیر قانون رہنے والے ڈاکٹر بابر اعوان کہتے ہیں کہ ایوان کے اندر کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیندہ دنوں میں پارلیمانی امور کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔


اس وقت حکومت کی سربراہی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور اپوزیشن کی سربراہی جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں بکرا منڈی لگی اور لیڈروں کی خریدوفروخت ہوئی۔ بہت سے دوسرے مسائل کی طرح وزیراعظم اس مسئلے سے بھی نمٹنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرسکے۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن اپنے ہی اعلان کردہ لانگ مارچ کی افادیت کو استعفوں کے ساتھ وابستہ کررہے ہیں۔

ان کے اتحادی بالخصوص آصف زرداری کے متعلق سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ تاثر مضبوط ہوچکا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کو کبھی بھی استعفوں کی طرف نہیں جانے دیں گے۔ انور چراغ کا کہنا ہے کہ حالات کے جبر نے عمران خان اور مولانا فضل الرحمن دونوں کو بے بس کردیا ہے اور دونوں شخصیات اپنے مزاج کے مطابق نہیں کھیل پا رہیں۔ اسی کو بعض لوگ جمہوریت کا حسن بھی کہتے ہیں۔


کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ زرداری صاحب نے سید یوسف رضاگیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹ کا امیدوار بناکر ایک تیرسے کئی شکار کیے ہیں۔ انہوں نے یوسف رضاگیلانی کو پارلیمانی سیاست میں داخل کرکے ان کا وہ احسان بھی اتار دیا جو بطور وزیراعظم عدالتی حکم پر زرداری صاحب کے متعلق سوئس حکام کو خط نہ لکھ کر گیلانی صاحب نے ان پر کیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ عدالتی حکم پر دس برس کے لیے پارلیمانی سیاست سے باہر ہوگئے تھے۔

پھر پی ڈی ایم کا مشترکہ امیدوار بنواکر انہیں پندرہ بیس دن تک خوب کوریج ملی اور پیپلزپارٹی میں بھی جان سی پڑ گئی اور پارلیمان کے باہر کی بجائے اندر کی جدوجہد پر زیادہ فوکس ہوا، یوں وہ اپنے اتحادیوں کو پارلیمان مخالف بیانیے سے ہٹانے میں کامیاب ہوئے۔ آگے چل کر یہی بیانیہ جہاں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مدت پوری کرانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے وہیں سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بھی اگلے ڈھائی برس تک قائم رہے گی۔

پی ڈی ایم بلکہ زیادہ بہتر انداز میں مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے اسلام ودیگر اتحادیوں کا سڑکوں پر احتجاج اس وقت تک موثر نہیں ہوسکتا جب تک پی ڈی ایم کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں موجود ہیں۔
رہا 26 مارچ کو ہونے والا لانگ مارچ تو آج مارچ کی 13 تاریخ ہے۔ یوں اس مارچ کو اگر ہونا ہے تو صرف 12دن باقی ہیں۔ 26 مارچ کو کراچی سے شروع ہوکر 30 مارچ تک اسلام آباد پہنچنے والے اس مارچ کے بعد دھرنا ہوگا یا نہیں اور کیا اتنا بڑا مجمع اسلام آباد اکٹھا ہوسکے کہ حکومت مستعفی ہوجائے یہ سوال اپنی جگہ لیکن اس قسم کے بڑے سیاسی ایونٹ کے لیے جس قسم کی تیاریوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ پورے ملک میں کہیں نظر نہیں آرہیں۔

قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات اور سینیٹ کے انتخابات کے بعد عوام میں بھی یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ جس پارلیمان کو جعلی اور ناجائز قرار دیا جارہا ہے، اس میں داخلے کے لیے سردھڑ کی بازی کیوں لگائی جا رہی ہے؟
حکومت اپنے کام میں ناکام نظر آرہی ہے کہ مہنگائی، غربت، بے روزگاری بڑھ رہی ہے لیکن اپوزیشن بھی، جس کا کام عوامی مسائل کو اجاگر کرکے حکومت کو اس انداز سے ناکام ثابت کرنا ہوتا ہے کہ عوام سمجھیں کہ ان کی ترجمانی ہورہی ہے، پارلیمان کے اندر اور باہر یہ کام کرنے میں ناکام رہی ہے۔

عوامی مسائل کے حل نہ ہونے کی ذمہ داری اگر حکومت پر ہے تو عوام کی بہتر انداز میں ترجمانی نہ کرنے کی ذمہ دار اپوزیشن ہے۔ بقول انور چراغ حکومت اور اپوزیشن دونوں ناکام ہیں۔ حکومتی سربراہ عمران خان اور اپوزیشن سربراہ مولانا فضل الرحمن دونوں اپنے اپنے اتحادیوں اور حالات کے ہاتھوں مجبور وبے بس ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :