بنامِ جمہوریت وبقائے پارلیمانی نظام

اتوار 17 فروری 2019

Khalid Imran

خالد عمران

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمدمیں ایک دن کی تاخیر سے استقبالی تیاریوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ حکومت اس سلسلے میں بہت پرجوش دکھائی دیتی ہے۔ مہمان تو ویسے بھی اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ لیکن سعودی ولی عہد کی آمد سے حکومت اور عوام نے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کرلی ہیں۔ وجہ اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ اگرچہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کاساتھ دیا اور ہر مشکل موقع پر بھرپور مدد کی ہے اورپاک سعودی تعلقات ہمیشہ بہتر رہے ہیں مگر آج آنے والے مہمان بہت بڑی سرمایہ کاری کا پیکیج لارہے ہیں۔

حکومتی عمائد کو یقین ہے کہ اس پیکیج کے تحت بننے والے منصوبے پاکستانی معیشت کو اپنے پاوٴں پر کھڑا کرنے میں مددگار ہوں گے۔
 سعودی عرب سے ہمارے تعلقات کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہی ہے کہ حکومت ہی نہیں اپوزیشن اور عوام بھی وہاں سے آنے والے مہمان کو رحمت ہی سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)

موجودہ حکومت نے مگر اس رحمت کا سایہ اپوزیشن پر پڑنے نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

روایت ہے کہ اس طرح کے مہمان کی آمد پر سیاسی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اپوزیشن کو بھی استقبالی تقریبات میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ اقدام آنے والے مہمان کی عزت افزائی کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی وخیرسگالی کا مظہر بھی ہوتا ہے لیکن فی الحال حکومتی ترجمان کی اطلاع ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ حکومت کے تعلقات اتنے اچھے نہیں کہ اسے کسی تقریب میں مدعو کیا جائے۔


اس سے پہلے آشیانہ اقبال ہاوٴسنگ اسکیم اور رمضان شوگر ملز کیس میں لاہور ہائی کورٹ سے میاں شہبازشریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد وفاقی وزیرِ اطلاعات یہ اطلاع دے چکے ہیں کہ بڑے ملزموں کو ریلیف ملنے سے قوم مایوس ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور نعیم الحق جو پی ٹی آئی کے قدیم ارکان میں سے ہیں اور فوادچودھری کی تحریکِ انصاف میں شمولیت سے پہلے بلاشرکت غیرے ترجمان کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی ضمانت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، امید کرتے ہیں شہباز شریف اپوزیشن کا کردار بہتر انداز میں ادا کریں گے، اگر اپو زیشن کا رویہ اچھا ہو ا تو وزیر اعظم عمران خان پیر کو اسمبلی میں خطاب کر یں گے، شہباز شریف کو پی اے سی کی چیئرمین شپ سے ہٹانے پر کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں ہوا، نعیم الحق نے اپوزیشن جماعتوں سے قانون سازی کے لیے تعاون کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو چاہیے کہ ملک کی بہتری کے لیے قانون سازی میں تعاون کرے، تحریکِ انصاف قومی اسمبلی کو نئے اور مثبت انداز میں چلانا چاہتی ہے ہم امید کر تے ہیں کہ شہباز شریف قائد حزب اختلا ف کی حیثیت سے وہ کر دارا دا کر یں گے جس سے ملک اور عوام کو فائد ہ ہو گا وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں آج تک جو تما شے ہو تے رہے ہیں وہ ختم کر کے ایک نئی روش اختیا ر کی جا ئے اور ذاتیا ت پر حملے بند کر کے اسمبلی کی کا رروائی میں مکمل ڈسپلن اختیا ر کیا جا ئے، وزیر اعظم کی خو اہش پر اسپیکر اسد قیصر نے ضابطہ اخلاق کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے، اس حوالے سے پیر کو حکومت اور اپوزیشن کا اجلاس ہوگا اگر اپوزیشن نے مثبت رویہ اختیار کیا تو عمران خان بھی ایوان میں خطاب کریں گے اور اپو زیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک و قوم کے لیے اچھے فیصلے کیے جائیں گے امید کر تے ہیں کہ شہباز شریف ایک ایسا مثبت رویہ اختیا ر کریں گے جس سے قومی اسمبلی کی کا رروائی آگے بڑھ سکے گی اور عوام کے مسائل حل ہو نے کے ساتھ ساتھ ان کو یہ تاثر بھی ملے گا کہ اسمبلی کو ئی سرکس نہیں بلکہ قانون ساز ادارہ ہے جو ہمارے مسائل کے حل کے لیے کو شاں ہے،میڈیا سیاسی قائدین کے گرما گرم بیانات کو اہمیت نہ دے، پیر کو اپوزیشن سے اجلاس میں مثبت انداز میں آگے بڑھنے پر اتفاق ہوگا۔

اپوزیشن کو چاہیے کہ ملک کی بہتری کے لیے قانون سازی میں تعاون کرے، ملک کی بہتری کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
فواد چودھری کے بیانات ہمیشہ سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ شہبازشریف کو پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانا وزیراعظم اور حکومت کو پسند نہیں اسی طرح وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشیداحمد بھی اس پر بہت ناراض ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور اس سلسلے میں شیخ صاحب عدالت جانے کو بھی تیار ہیں۔


پارلیمانی امور چلانے کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت کے بعد اسپیکر کرتے ہیں۔ پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے مزید چھتیس کمیٹیوں کی تشکیل بھی کردی ہے جس میں حزبِ اقتدار واختلاف کے ارکان شامل ہیں جو اَب اپنے چیئرمین منتخب کررہے ہیں۔ ان چیئرمینوں کا تعلق حزبِ اقتدار واختلاف دونوں سے ہوگا جیسا کہ مذہبی امور کی قائمہ کمیٹی کی سربراہی جے یو آئی، اطلاعات ونشریات کی نون لیگ اور آبی وسائل کمیٹی کی سربراہی پی پی پی کو ملی ہے۔


اس وقت وزیراعظم عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف واضح طور پر تین دھڑوں میں تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف پارٹی کے وہ پرانے اور سنجیدہ راہنما ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اور پارلیمانی نظام چلانے کے لیے اپوزیشن کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ دوسرے دھڑے میں وہ لوگ شامل ہیں جو پی ٹی آئی کو اقتدار میں آتا دیکھ کر شامل ہوئے اور اقتدار کے بعد ان کی منزل کوئی اور پارٹی ہوگی،وہ ہر وقت پارلیمان میں محاذ آرائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

تیسرا دھڑا اُن راہنماوٴں کا ہے جوپہلے دونوں دھڑوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ جو وزیراعظم عمران خان پر اثرانداز ہوتا ہے اس کا ساتھ دیا جائے۔ عمران خان شاید اپنی افتادِ طبع کے باعث کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے، کبھی تو بیان دیتے ہیں کہ وزراء گھسی پٹی باتیں نہ کریں، اپوزیشن کی اسمبلی میں کی گئی ہر سیاسی بات کا جواب نہ دیں۔ اور کبھی وہ اس کے بالکل برعکس بات کرتے ہیں۔

خان صاحب کے نئے اور پرانے ناقدین کا خیال ہے کہ جب پارلیمان کے اندر اپوزیشن کے اہم راہنما کہہ چکے ہیں کہ ہم حکومت گراکر نظام کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے تو پھر وزیراعظم کو بھی اپنا رویہ بدلنا چاہیے، ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور عوامی مسائل حل کرنے کے لیے انہیں اپوزیشن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہییں۔
اب جب مل جل کر چلنے کی شہرت رکھنے والے، قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف میاں شہبازشریف رہا ہوچکے ہیں، میاں نوازشریف آیندہ جمعہ جاتی امرا میں پڑھنے کی امید کررہے ہیں اور پیپلزپارٹی کی قیادت بھی پارلیمانی کاروبار اچھے طریقے سے چلانے کی خواہش مند ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اسی سے سب کے ”کاروبار“ چلنے کی راہ نکلے گی۔

ان حالات میں بنی گالا میں رہائش پذیر نعیم الحق کا مذکورہ بالا بیان بتا رہا ہے کہ تحریکِ انصاف کا اول الذکر دھڑا جو نظامِ حکومت اور امورِ پارلیمان چلانے کے لیے اپوزیشن کا تعاون چاہتا ہے وزیراعظم کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور سرپرستوں کا بھی خان صاحب کو شایدیہی مشورہ ہے کہ حکومت حزبِ اختلاف کی طرف ایک قدم بڑھائے تو میاں شہبازشریف کی قیادت اور سیدخورشیدشاہ کی رفاقت میں وہ دو قدم آپ کی طرف آئے گی، بنامِ جمہوریت وبقائے پارلیمانی نظام !
اگر ایسا ہوا تو پھر فوادچودھری اور شیخ رشید جیسے ”میاں دشمن“ کیا کریں گے؟ انوار چراغ کا اس پر کہنا ہے کہ چودھری صاحب تو بابراعوان صاحب کے ساتھ مل کر میڈیا کے ساتھ وہی کچھ کریں گے جوبہ حیثیت وفاقی وزیرِ قانون بابر صاحب وکلاء کے ساتھ کیا کرتے تھے ،اور رہے شیخ صاحب تو وہ اپنے مستقل مہربانوں کو دیکھ دیکھ کر سیٹیاں بجایا کریں گے اور قومی اسمبلی کی ریلوے کمیٹی میں خواجہ سعد رفیق کے سوالوں کے جواب دیا کریں گے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :