
اقدار
پیر 14 اکتوبر 2019

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
اسی کا فیض ہے کہ اپوزیشن کی قابل ذکر جماعتیں آزادی مارچ کی در پردہ حمایت کرتی دکھائی دیتی ہیں، گو سرکار اس فعل کو بھی بدعنوانی کے تحفظ کی عینک سے دیکھ رہی ہے لیکن اس کے دعوی میں تب وزن ہوتا جب زندان کے پیچھے بھاری بھر شخصیات سے لوٹی دولت کی وصولی کا عمل شروع ہو جاتا، وہاں معاملہ گلاس توڑنے والا ہے،نیب اور عدالتوں کی یاترہ کے سوا قوم کے ہاتھ کیا لگا ہے،اب تو ماہر معشیت بھی ڈالروں کی بیرون ملک منتقلی کو کہانی قرار دے رہے ہیں۔سرکار کا دعوی ہے کہ شرکاء مارچ کو وفاق میں داخلہ ناممکن بنا دیا جائے گا ، قوی امکان ہے کہ قیادت ہی کوگرفتار کر لیا جائے اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اک نئی سیاسی جنگ شروع ہو جائے گی،مہنگائی میں غوطہ زن سادہ لوح عوام نے اس کلچر سے نجات کے لیے ہی تو” تبدیلی ‘ ‘کا خواب دیکھا تھا ۔
کپتان کا اخلاص اپنی جگہ لیکن زندگی اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ضرویات زندگی بھی لازم ہیں، محدود وسائل رکھنے والا شہری کس کرب سے گزررہا ہے، مریض کی کیا مشکلات ہیں، بے روزگاری کا جن بے قابو ہو رہا ہے ان کو موضوع گفتگو آخر کس نے بنانا ہے،اگر یہ عوامی نمایئدے عام فرد کی مشکلات حل کرنے کے لیے قانون سازی ہی نہیں کر سکتے تو پھر بھاری بھر مراعات اک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہی کیوں صرف ہو رہی ہیں؟
امن و امان کی نا گفتہ صورت اس کے علاوہ ہے،نو عمر بچیوں کی عصمت دری اور بعد ازاں ان کا قتل، ارباب اختیار کے مذمتی بیانات اور تفتیش کے روایتی ہتھکنڈے،کس قدر خوفناک منظر ہے،ان حالات میں کپتان کی امت کی حمایت میں کی گئی تقریر کیا معنی رکھے گی؟
ہمیں اعتراف کہ اک سال قلیل مدت ہے لیکن لاء اینڈ آڈر کے لیے مزید کسی قانون سازی کی ضرورت ہے؟،چونیاں کی بچیاں اگر تبدیلی کے عہد میں بھی کسی کی ہوس کی بھینٹ چڑھ گئی تو ماضی کا کیا رونا،کوئی اک شعبہ تو ایسا ہو جسے دیکھ کر اطمعینان ہو، عوام اپنی لوٹی ہوئی دولت برداشت کر لے گی مگر اپنے لخت جگروں کی سفاکی موت پر سمجھوتہ نہی کر سکتی۔
کپتان جی نے سارے محاذ بیک وقت کھول کر اپوزیشن کو طاقتور بنا دیا ہے، جن کے بارے میں غیر اخلاقی القابات عوامی جلسوں میں کہا کرتے تھے آج ان سے ہی مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں، سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اک زمانہ تھا کہ مولانا اور کپتان اک ہی کشتی کے سوار تھے آج وہ قوتیں ان کے خلاف بر سر پیکار ہیں جن کے لیے وہ نرم گوشہ رکھا کرتے تھے ہماری قومی سیاست کی کونسی کل سیدھی ہے اس رویہ نے عوام کو مایوس کیا ہے،وابستہ توقعات سے یہ اخذ کیا جا رہا تھا کہ اب کی بار روایتی طرز سیاست دم توڑ جائے گا لیکن پرنالہ وہیں ہے سال بھر میں پارلیمنٹ قابل ذکر قانون سازی بھی نہ کر سکی اب اک نیا میلہ ڈی چوک کی تاریخ دہرانے جارہا ہے۔ مولانا روز اول ہی سے سرکار کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں ناقدین کا خیال ہے پالیمنٹ کی جدائی نے انکو اس مارچ پے مجبور کیا ہے اگر ان کا ایجنڈا ہی حکومت سے نجات ہے تو یہ خالصتا غیر جمہوری رویہ ہے اس سے ان قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو گی جو سیاست دانوں کو مفادات کی سیاست کا طعنہ دیتے ہیں اور خود کو ترقی کی علامت اور محب وطن گردانتے ہیں کسی بھی جمہوری ریاست میں پارلیمنٹ ہی اک بہترین فورم ہے جس کی وساطت سے قومی نوعیت کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں تاکہ عوام کو اطمعینان ہوان کی فلاح کے فیصلے ہو رہے ہیں، بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت پختہ نہ ہو سکی اب کسی بھی ناگہانی صورت میں عوام غیر جمہوری اداروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں ، یہ رویہ سیاسی قیادت کی ناکامی کو اور نمایاں کر دیتا ہے ہمیں اس سے مفر نہیں کہ حالات اس مقام پے لائے جاتے ہیں کہ غیر جمہوری قوت کے لیے اقتدار پر شب خون مارنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے کیا اس موقع پے اقتدار کے بھوکے سیاسی افراد کی کوئی کمی ہوتی ہے؟، بانی جماعت کے حصے بخرے بھی اس طرز کی مشق کے دوران ہوئے،مولانا یہ جانتے ہوئے بھی ایسا ماحول کیوں پیدا کر رہے ہیں؟ انھیں احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن ان کے مطالبات میں عوامی نوعیت کا کون سا مطالبہ ہے جس کے ماننے سے عام فرد کی مشکل آسان ہو گی، اگر مقصد سول سپر میسی ہے تو بھی اس کا راستہ پالیمنٹ سے ہو کر گذرتا ہے، زیادہ بہتر ہے وہ آل پارٹی کانفرنس منعقد کریں اور کھل کر شرکاء کو بات کرنے دیں سرکار کو بھی مدعو کر کے آئنیہ دکھایا جائے، ذاتی اور جماعتی مفادات بالائے طاق رکھتے ہوئے سب سیاسی قائدین خود احتسابی کریں اور عہد کریں کہ وہ کسی کا آلہ کار نہیں بنے گے ،، تمام قومی سطح کی حامل پالیسوں پر صدق دل سے عمل پیرا ہوتے ہوئے اس ریاست کو عظیم تر بنائیں گے مگر کسی بد عنوان کو کندھا فراہم نہیں کریں گے۔
یہ ریاست جمہوری انداز میں وجود میں آئی ہے اس کی بقاء کا بھی یہی طریقہ ہے، کیا مولانا کو اس کا ادراق نہیں کہ غیر جمہوری عہد میں ہم وطن کے اک حصہ سے محروم کر دئے گیے، سرکار کی بھی بڑی زمہ داری ہے لہ وہ وسعت قلب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو کھلے ماحول میں اپنے مطالبات رکھنے دے ان کی بات کو سنا جائے ان کے جائز مطالبات کو مانا جائے ، اپوزیشن کی نمائندگی پارلیمنٹ میں موجود ہے لہذا آزادی
مارچ کے محرکات کو بھی زیر باعث لایا جانا چاہیے،اگر سرکار بدعنوانی کے تحفظ کی کاوش کو اس مارچ سے منسلک کر رہی ہے تو اسے بھی ان افراد سے دست شفت اٹھانا ہو گا جو اس کی صفوں میں ہیں یا جنھوں نے اپنی طاقت اور زور بازو سے دولت باہر منتقل کر کے بڑے بڑے فار ہاوسز غیروں کی سرزمین پے بنا رکھے ہیں،اگر اپوزیشن خواہش رکھتی ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کو روکا جائے تو اسکو بھی جمہوری قدار کو اپنانا ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.