
نسل پرستی
جمعہ 5 جون 2020

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
ایک ایسے وقت میں جب کورونا سے ایک لاکھ سے زائد شہری اسکا ایندھن بنے، چار کڑور کو بے روزگاری کا سامنا ہے، صدارتی الیکشن کی بھی آمد آمد ہے، پولیس کے ہاتھوں بے رحمانہ انداز میں سیاہ فام کی ہلاکت کی حماقت کیوں کی گئی ہے اس کے اثرات امریکی سیاست پر ضرور مرتب ہونگے۔ زیادہ شہروں میں اجتماعی احتجاج نے سرکار کے ہوش اڑا دئیے ہیں، وائٹ ہاوس پر حملہ عوامی غصہ کا عکاس ہے، ناقدین کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے شہریوں کوغم وغصہ سے بھر دیا ہے۔ پولیس کو بھی اس قتل کی بھاری قیمت ادا کر پڑے گی۔
ایسا پرتشدد سانحہ پولیس کے ہاتھوں شائد پہلی بار امریکہ میں ہوا ہو، جس نے عوام کو سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور کیا ہے،لیکن فلسطینی اور کشمیریوں مردوزن کو تو ہرروزاس سے بھی زیادہ سنگین ظلم و ستم سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں سہنا پڑتا ہے، اگر طاقتور ریاست کے باشندے مذکورہ مظلومین کے لئے بھی پر امن احتجاج کو رواج دیتے تو آج سیاہ فام کی یوں بے آسرا ہلاکت نہ ہوتی، جس طرح امریکی شہریوں کے حقوق مقدم ہیں اسی طرح باقی دنیا کے انسان بھی سول رائٹس رکھتے ہیں، البتہ دیگر ممالک کے سیاہ فاموں نے اپنے پلے کارڈ سے احتجاج کے دوران انکل سام کو اپنی طاقت کے ذریعہ یہ باور کرانے کی کاوش کی ہے کہ وہ عرب نہیں جو ہر ناانصافی برداشت کرلیں، انکا یہ پیغام عرب حکمرانوں کے لئے ایک طمانچہ کی حثیت رکھتا ہے،جنہوں نے تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود اپنی عوام کو قتل ہونے کے نام پر نیٹو جیسے بھیڑئے کے سامنے ڈال دیاتھا ،ہر چند کہ ہم امریکی پولیس کے رویہ کو غیر انسانی کہنے میں حق بجانب ہیں، لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قریبا ایسا ہی سلوک ہر بے بس عجمی سے کیا جاتا ہے ، حالنکہ عرب کے صحرا آبادکرنے اور قد آدم عمارات تعمیر کرنے میں عجمیوں کی محنت اسی طرح شامل ہے جس طرح کالوں کی امریکی آباد کاری میں ہے لیکن کسی عجمی کوعربی کے برابر حقوق میسر نہیں رہے۔ وہ ہمیشہ سے اجنبی ٹھرے ہیں۔
ارض پاک کے تعلیم یافتہ شہر کراچی میں کئی بار خون کی ہولی کھیلی گئی، بوری بند لاشوں کا کلچر آباد رہا ، مگر ہم احتجاج کی ایسی روایت قائم نہ کرسکے،اسی شہر میں پولیس کے ایک سورماء پر سینکڑوں شہروں کو بے دردی سے ہلاک کرنے کا الزام ہے، ایک فیکٹری میں مزدوروں کوزندہ جلانے کا سانحہ آج بھی انصاف کا منتظر ہے، کراچی کی آدھی آبادی بھی اس وقت نکل کھڑی ہوتی تو حالات مختلف ہوتے، ہمارا پولیس کلچر سامراجی روایات کا آیئنہ دار ہے، ہر سرکار اسکی تبدیلی کا لولی پاپ دیتی ہے، لیکن ستر سال سے پرنالہ اپنی جگہ پر ہے، امریکی عوام کے ایک بھر پور احتجاج نے پولیس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرد یا ہے۔ نجانے ہمیں بھی پولیس کے ظالمانہ کلچر سے نجات کے لئے یہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا؟ ہمارا خمیر جس مذہب سے اٹھا ہے عدل وانصاف اس کا بنیادی وصف ہے، جس ہستی کے ہم پیرو کار ہیں انھوں انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے والے تمام امتیازات کے خاتمے کا حکم صادر فرمایا، پسے ہوئے طبقہ کو زندگی دی، کا لے اور گورے کے جس تنازعہ میں انکل سام الجھا ہواہے، نبی آخرزمان نے حسب ونسب کے تمام بت اپنے پاؤں تلے روند دئے، اسلام کا اصل پیغام ہی انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنا ہے، وہ فتح مکہ کا کیا منظر تھا جب سارے قریش کے سردار بڑے ادب سے کھڑے تھے، آپ نے حضرت بلال حبشی کو کعبہ کی دیوار ہر چڑھ کر اذان دینے کا حکم صادر فرمایا، یہ سیاہ فام شخصیت ان سردراوں سے آج بہت ہی محترم تھی، جو کبھی ان کی نظر میں کم تر تھی
یہ عقیدت بعد میں بھی جاری رہی، روایت ہے کہ حضرت بلال آپ کے بعد شام چلے گئے، خواب میں آپ کی زیارت ہوئی، تو کہا تم بے وفائی کر گئے ،ہمارا شہر چھوڑ دیا،سواری لی فورا مدینہ چلے آئے،دیوانہ وار آپ کو تلاش کیا، کہی نہ پا کر روضہ اقدس سے لپٹ کر رو دیئے جب آپکی آمد کی خبر اہل مدینہ کو ہوئی تو انھوں نے مسجد نبوی کا رخ کیا اورآذان سنانے کی استدعا کی، آپ کو اس ماحول میں اذان سنانا مناسب نہ لگا، کیونکہ آپ کی موجودگی میں شہادت دیتے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، اتنے میں حضرت امام حسین کو آتے دیکھا تو لوگوں نے ان سے کہا کہ بلال کو آذان دینے کی درخواست کریں، ظاہر اب حکم عدولی ممکن نہ تھی ،کہا جاتا ہے آواز کا سننا تھا کہ پورا مدینہ امڈ آیا، شاید وہی دن تھا جب اہل مدینہ جی بھر کے رو دیئے۔
ایسے وقت میں جب انسانی حقوق کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے،اس طاقت ور سرکار کو نسل پرستی کا معاملہ در پیش ہے، جو دوسروں کے حقوق کی ٹھیکدار رہی ہے، آج اسکے شہری اپنی سرزمین پر امتیازی سلوک کے خلاف آگ کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں۔ دینا کے پسے ہوئے طبقات، انسان آج بھی نبی آخرالزماں کی تعلیمات میں پناہ لے سکتے ہیں،، تاہم ہماری ناکامی یہ ہے کہ ہم آپ کے خوبصورت پیغام کو دنیا کے سامنے رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے، تقوی کی بجائے، حسب نصب کے غرور نے ہمیں بھی محکومی کے مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ جو نسل پرستی کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.