
ڈھونڈ چراغ زیبا لے کر
ہفتہ 11 جولائی 2020

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
روایت ہے کہ قائد اعظم زیارت میں قیام پذیر تھے کہ ان کے سامنے انکے اے ٹی سی نے ایک وزیٹنگ کارڈ رکھا،آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا،فرمایا اسے کہو کہ آیندہ مجھے شکل نہ دکھائے،یہ آپکا بھائی تھا اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے کارڈ پر اپنے نام کے نیچے برادر آف قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل لکھوایا تھا ،آپکی تیمار داری پر مامورنرس کی خدمت سے متاثر ہو کر بانی پاکستان نے پوچھا،بیٹی میں تمھاری کیا خدمت کر سکتا ہوں،اس نے کہا کہ میرا تعلق پنجاب سے ہے،سارا خاندان وہاں مقیم ہے اور میں کوئٹہ میں ڈیوٹی دے رہی ہوں،آپ میرا تبادلہ پنجاب کروا دیں، تھوڑی خاموشی کے بعد، اداس لہجے میں جواب دیایہ محکمہ صحت کا کام ہے گوونر جنرل کا نہیں، کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے لئے طیارہ میں رائٹنگ ٹیبل لگوانے کا حکم صادر فرمایا فائل وزارت خزانہ تک پہنچی،انھوں نے اجازت تو دے دی لیکن نوٹ لکھا کہ گورنر جنرل اس قسم کے احکامات سے پہلے وزارت خزانہ سے اجازت کے پابند ہیں، جب یہ بات آپکے علم میں آئی تو تحریری طور پر وزارت خزانہ سے معذرت کی اور اپنا حکم نامہ منسوخ کردیا، ہماری سرکاری مشینری کو ان روایات سے کیوں لا علم رکھا جاتا ہے؟ اب تو قحط الرجال کی سی کیفیت ہے،اب انھیں ڈھونڈ چراغ زیبا لے کر کے مصداق آتے ہیں۔
بدیشی کلچر پر نازاں افسر شاہی ان اصولوں سے کیسے صرف نظر کرتی ہے جب قومی خزانہ کو مفاد پرستوں کی ٹوکری میں ڈالتی ہے مگر جب عام سائل کی داد رسی کا معاملہ ہو تو پھر قانون کی کتاب حرکت میں آجاتی ہے،ذہنی غلامی کے کلچر نے شہری کو اتناخود سر بنا دیا ہے کہ وہ قانون شکنی پر شرمندہ ہونے کی بجائے، سیدھا ہو جاتا ہے اور بارعب انداز میں سوال کرتاہے تم نہیں جانتے میں کون ہوں؟ اس مقام تک لانے والے کوئی اور نہیں ہمارے ارباب اختیار ہیں۔من پسند افراد کی تعیناتی کا معاملہ ہو، مراعات کی بندر بانٹ ہو، عہدوں کی تقسیم ہوں،عملا قوانین کو مخصوص طبقہ کے لئے ”ریلکس “کر دیا جاتا ہے مگر زبان سے میرٹ کی گردان جاری رہتی ہے ،کچھ ادارے ریاستی تحفظ کے نام پر خود کو بلا دست تصور کرتے ہیں،اسکی آڑ میں قانون شکنی کا جواز تلاش کیا جاتا ہے جس میں بدعنوان افراد اور ادارے پناہ لینے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔
بلا امتیازاطلاق قانون کبھی بھی مشکل نہیں رہا،کسی راکٹ سائنس کی نہیں اخلاص کی ضرورت ہے، ایک حکم نامہ درکار ہے، ایمانداری کے علمبردار اور تقاریر کے شائق وزیر اعظم اپنے خطاب میں قوم اور اداروں کوحکم صادر فرمائیں کہ ان سمیت کوئی بھی خود کو قانون اور آئین سے بالا تر نہ سمجھے گا ،سرکار کار میں مداخلت اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والا قومی مجرم ہوگا، کوئی بھی اہلکار خلاف قانون کوئی کام انجام دے گا تو اچھے انجام کی توقع نہ رکھے،ہماری سرزمین پر ہی ایک قومی ادارہ موٹر وے پولیس کی صورت میں موجود ہے،جو کیسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا،یہاں قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوئی حماقت ہی نہیں کرتا،آخر کیوں؟۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.