افغانی نسل نو

پیر 14 دسمبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اہل افغان کو یہ امتیاز تو بہر حال حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے زمانہ کی تین بڑی سپر پاورز کو شکست فاش دے کر عالمی برادری میں اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے،تمام تر سامان حرب اور جدید جنگی آلات کے بعد اس طرز کی کامیابی تو ہر کسی قوم کا مقدر ہو سکتی ہے، بے سروسامانی کے عالم یہ اعزاز اپنے نام کرنا صرف اس قوم ہی کا شیوہ ہے،اس سے بڑھ کر بیرونی حملہ آورز کوافغانی قوم نہ صرف مار بھگانے کی سعادت کرنے میں کامیاب رہے بلکہ اپنی ہی شرائط پر جنگ بندی کرنیکی روایت کو بھی برقرار رکھا،نائن الیون کے بعد جس طرح یہ قوم بہادری سے لڑی اور اتحادی افواج کو بھاگنے پر مجبور کیا وہ اپنی مثال آپ ہے،ایک بڑی سپر پاور جس کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا ہے اس کی انتظامیہ بھی اپنی افواج کے تحفظ کی بھیک مانگتی ہوئی دکھائی دی،یہ اسی قوم کا طرُہ امتیاز ہے جو بیرونی حملوں کی صورت اپنے ملکی، علاقائی، لسانی اور نسلی اختلافات کو بھلا کر ان قوتوں کو دیس نکالا دینے میں جتُ جاتے ہیں،جو انکی سرزمین پر ناپاک قدم رکھنے کی حماقت کرتے ہیں، اسی وصف نے انکی بہادری کا جھنڈا پورے عالم میں بلند کیا ہے۔

(جاری ہے)


یہ سرزمین بیرونی حملہ آوروں کی آماجگاہ رہی ہے،برصغیر جو ایک عہد میں سونے کی چڑیا کہلاتا تھا،اس کے وسائل پر شب خون مارنے کے لئے افغانستان ہی کو حملہ آور گزر گاہ بناتے تھے،اس خطہ میں یہ قدیم ریاست ہے،اس پر طرح طرح کے طرز حکومت آزمائے جاتے رہے ہیں، اس قوم کے روح رواں سردا ر امان اللہ ریاست میں سیکولر روایات کو آگے بڑھانے کے لئے بے تاب رہے،وہ نیشنل ازم کے بھی قائل تھے،ان کے پیشرو ظاہر شاہ نے فرد واحد کی حکومت جو آئینی بادشاہت کی شکل تھی اسکو پروان میں چڑھانے میں دلچسپی رکھتے تھے،اس سیاسی نظام کی کوکھ سے جن سیاسی جماعتوں نے جنم لیا، اس میں قابل ذکر پیپلز ڈیموکریٹک تھی،اس نے سماجی اصلاحات کے نفاذ پر زور دیا اور یہ جماعت سوشل ازم کو بطور نظام نافذ کرنے کی آرزومند بھی رہی، روس کے شکست کھانے اور رخصت ہونے کے بعد سیاسی معاملات مقامی متحارب گروہوں کے ہاتھ میں آگئے ،بدامنی کا نیا سلسلہ شروع ہوا،جس سے طالبان کو عوامی سطح پر پذیرائی میسر آگئی لیکن انکا طرز حکومت آمرانہ قسم کا تھا،جب انکل سام نے اس قوم کو مکمل سیاسی نظام دینے کی کاوش کی، تو حامد کرزئی،اور اشرف غنی کی صورت میں انتخابی جمہوریت میں پناہ لینے کو لازم سمجھا گیا،نیا آئین مرتب ہوا،قبائلی کلچر کے مطابق گرینڈ جرگہ میں اس کی منظوری ہوئی۔


جمہوری عمل کی بنیاد رکھنے کے باوجود یہ بات روز روشن کی طرح طے ہے کہ افغان سماج آج بھی قبائلی روایات کا امین ہے،قوم لسانی اور نسلی گروہوں میں نہ صرف منقسم ہے بلکہ اس پر انھیں فخر بھی ہے، مذہبی اقدارسے محبت رکھنے کی بدولت یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مذہب اسلام ہی وہ بایئنڈنگ فورس ہے جو قوم کو متحدرکھ سکتی ہے،اور لسانی، نسلی خرافات سے نجات دلاسکتی ہے۔


انتخابی جمہوریت کا البتہ یہ فائدہ قوم کو ضرور ہوا کہ اسکی وساطت سے بیرونی سرمایہ کاری اس ملک میں آئی،سماجی افراسٹرکچر تبدیل
ہوا، تعلیم کو فوقیت دی گئی،قومی ایام سرکاری سطح پر منائے گئے،میوزیکل کنسرٹ کے انعقاد سے اس گھٹن سے قوم کو نکالنے کی کاوش ہوئی، جو جنگ و جدل کی وجہ سے اس کا شکار تھی ۔
اس گلوبل ویلج کے اثرات افغانی نسل نوع پر بھی مرتب ہو رہے ہیں،وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ سے عالمی برادری سے بھی رابطہ میں ہے جو کہ خوش آئند بات ہے، اس عمل سے مکالمہ بازی کا بھی آغاز تو ہوا ہے۔


نسل نو کے خیالات سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ غالب تعداد نہ تو انتہا پسندی چاہتی ہے نہ ہی اسکوسیکولرازم پسند ہے نہ ہی اسکی دلچسپی مغربی جدیدت میں ہے،انکا ماننا ہے کہ مذہبی تعلیم کی سمت درست نہ ہونے سے سماج میں انتہا پسندی کو فروغ ملا،گذشتہ دنوں افغان قومی ادارہ نے امن کی بحالی اور مذاکرت کی بابت نوجوانان کے مابین ایک مضمون نویسی کا مقابلہ منعقد کروایا، جس میں طلباء وطالبات کی کافی تعداد نے شرکت کی،اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیرونی مداخلت کے بغیر سیاسی نظام کے خواہاں ہیں ،اگرچہ نسل نو بھی طالبان اور سرکار کے ما بین مذاکرات کے حامی ہیں، تاہم ان کے تحفظات ہیں کہ جینواء، پشاور،تاشقند کے معاہدہ جات کے باوجود بھی یہ قوم امن اور آتشی کے لئے آج تلک ترستی رہی ہے،ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بدامنی میں وار لارڈز، لسانی پارٹیز کا بھی ایک کردار ہے۔


سماجی ماہرین کا یہ کہنا بجا ہے ،کوئی ریاست جب تک بنیادی ریاستی کردار اد نہیں کرتی وہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے،پالیسی اسٹیڈیز کے زیر اہتمام مقابلہ جات کے شرکاء نے رائے دی کہ امن کے قیام کے لئے قرآن ہی سے راہنمائی لینا ہوگی،نسل نو کے مطابق افغانی قوم کے مسائل کی وجوہات میں بیرونی مداخلت،غربت، عدم تحفظ،انتظامی بدعنوانی،اقرباء پروری،کمزور عدالتی نظام اور خدمات کی فراہمی میں سست روی قابل ذکر ہیں،اس قوم کے نو نہال امن کے ساتھ معاشی ترقی،سرکاری مشینری کی اعلیٰ کاکردگی اور بین الاقومی سرمایہ کاری کے متمنی ہیں اور اس کی بدولت ہی تشدد کے خاتمہ کی امیدکی جاسکتی ہے ، وہ قومی معاملات ،اور امن کی بحالی میں ہمسایہ ممالک کے تعاون کو نظر انداز کرنے کے قطعی قائل نہیں ہیں،کابل یونیورسٹی میں دھماکہ ان پر بجلی بن کر گرا تھا،اس کی مذمت قریباً ہر مکتبہ فکر نے کی تھی،سرکار اور طالبان کے مابین مذاکرت کو قدر کی نگاہ سے دیکھے جانا، نسل نو کا اسکی حمایت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قوم گولہ ،بارود کی سیاست سے تنگ آچکی ہے اور اس سے نجات چاہتی ہے،اس خطہ میں سی پیک، ون بلیٹ ون روڈ کے منصوبہ سے مستعفید ہونا چاہتی ہے،تو اس کے بہترین راستہ کا انتخاب خود افغان عوام کو کرنا ہوگا،جس میں نسل نو کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔

لیکن دیکھنا یہ ہے کہ افغانی حکومت اور طالبان نسل نو کا اعتماد حاصل کرنے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں،افغانستان کی ترقی کا خواب نسل نو کی معاونت اور شرکت کے بغیر کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :