بے انصافی

منگل 6 اپریل 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

حضرت علی  کا اہم قول ہے کہ سماج کفر پر تو زندہ رہ سکتے ہیں مگر ناانصافی پر ہر گز نہیں،گویا کسی بھی سماج کی تباہی میں بڑا کردار نا انصافی ہی کا ہوتا ہے، ایک روایت یہ بھی کہ مشہور چینی کنفیوشس سے کسی نے پوچھا کہ اگر کسی قوم کے پاس تین چیزیں ہوں، انصاف، معشیت اور دفاع با َاَمر مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس کو ترک کیا جائے،فلسفی نے کہا دفاع ترک کر دو،سوال کرنے والے نے پوچھا ،انصاف اور معشیت میں سے کسی ایک کو چھوڑنا لازم ہو جائے تو کیا جائے، چینی فلسفی نے جواباً کہا کہ معشیت ترک کر دو،اس جواب پر سوال کرنے والے نے پھر کہا کہ دفاع اور معشیت چھوڑنے پر قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کر دے گا؟ کنفیوشس نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہو گا،بلکہ انصاف کی وجہ سے قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہو گا،لوگ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا مقابلہ کرلیں گے،اسی طرح ونسٹن چرچل کے اس معروف قول کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے کہ جب دشمن کی افواج برطانیہ پر پے در پے حملے کر رہی تھیں تو سپہ سالار نے چرچل سے کہا کہ دشمن عنقریب برطانیہ پر قبضہ کر لے گا اور ہم شکست کھا جائیں گے تو چرچل نے کہا کہ جاکر دیکھو کہ ہماری عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے کہ نہیں اگر عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو برطانیہ کو کچھ نہیں ہوگا، برطانیہ دو عالمی جنگوں میں شریک رہ کر بھی آج ایک عالمی قوت ہے۔

(جاری ہے)


ہماری اسلامی تاریخ میں انصاف کو کلیدی اہمیت حاصل ہے قرآن حکیم کے واضع احکامات اور احادیث کا خزینہ اس ضمن میں عام منصف کے علاوہ ارباب اختیار کی راہنمائی کرتا نظر آتا ہے مگر کم ہی ہیں جو اس سے نصیحت لیتے ہیں، آئے روز بہت سے فیصلہ جات جو اخبارات کی زینت ہوتے ہیں وہ ناانصافی کا ایسا منہ بولتا ثبوت ہوتے کہ انسانیت شرما جاتی ہے، ان میں ایک معروف مقدمہ خاتون کا تھا جس کو چوری کے معمولی مقدمہ میں بیس سال قید میں رکھنے کے بعد جب باعزت رہائی دی تو اس نے معزز عدالت سے سوال کیا کہ میں کونسے گھر رہائی پا کر جاؤں میرا تو سارا خاندان اگلے جہاں سدھار گیا ہے، ہماری عدالتی تاریخ میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک فرد مرنے کے کئی سال بعد باعزت بری ہوگیا۔


 عمومی رائے یہ ہے کہ یہاں انصاف غرباء، مساکین کو نہیں بلکہ اُمراء کو ملتاہے بعض اوقات انھیں چند منٹ ہی میں ضمانت دی جاتی ہے جب کہ اسی عدالت میں کئی سالوں سے ملزم رہائی کے منتظر رہتے ہیں،لاہور شہر ہی کے معروف مقدمہ میں جب ایک جج کے فرزند نے ایک لڑکی کو پرپوز کرنے کے انکار سے مشتعل ہو کر چاقو کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا تھا جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لا کر موت کے منہ میں چلی گئی لیکن جج کے مجرم بیٹے باعزت رہائی پا گئے ۔


ہمارے ہاں بڑی سیاسی شخصیات کے مقدمات رخصت کے روز بھی سماعت کئے جاتے ہیں لیکن غریب کو روز محشر تک انصاف کے لئے منتظر رہنا ہے،واضع مثال کوئٹہ میں دن کی روشنی میں ایک سردار کی گاڑی کی ضد میں آنے والے پولیس اہلکار کی موت بھی ہے جو اپنے فرائض منصبی انجام دے رہا تھا،ایک طرف عدالتیں غریب کو انصاف فراہم نہیں کرتیں تو دوسری طرف بااثر افراد اسکی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں متاثرہ خاندانوں پر صلح کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے تاکہ بااثر مجرم ہر قسم کی سزا سے بچ نکلیں۔


یوں تو ہر سرکار بر وقت اور سستا انصاف فراہم کرنے کا دعوی کرتی ہے لیکن عملًا عوام اِن تمام اداروں کے ہاتھوں رسوا ہوتی ہے انصاف کی فراہمی جنکی اولین ذمہ داری ہے، لاہور موٹر وے زیادتی کیس کے مجرموں کو جس طرح کڑی اور عبرت ناک سزا سنائی گئی ہے اس سے یہ تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر تمام ادارے اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض منصبی انجام دیں اور کسی کا حسب اور نسب درمیان میں حائل نہ ہو تو مجرموں کو سزا دینا ناممکنات میں سے نہیں ہے۔


ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وکلاء برادری بھی انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ سمجھی جاتی ہے، کچھ قانونی ضابطے ، پولیس کلچر،جیل کا نظام سب ہی اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال کر سائل کو اتنا زچ کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر چپ سادھ لیتا ہے، ہمارے حلقہ احباب میں سے ایک کے اہل خانہ کے ساتھ گھر کے ساتھ دن کی روشنی میں ملتان میں ڈکیتی کی واردات ہوئی، گن پوائنٹ پر خواتین سے زیور چھینا گیا، اس واقعہ کو دوسا ل ہونے کو ہیں ،شناخت پریڈ کے نتیجہ میں ملزمان بھی پکڑے گئے، مال بھی برآمد ہوا، انھوں نے عدالت سے ضمانت حاصل کر لی تاحال گواہوں کے بیانات ہی نہ ہو سکے، اس سے ملزمان کی اتنی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ وہ اب پولیس کی مدد سے صلح کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں، ڈکیتی کے بعد بھاری بھر رقم مدعی کو اس مقام تک مقدمہ لانے میں خرچ کرنا پڑی ہے ایک تو ایک مثال ہے اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہیں جن سے کئی دیوان رقم ہو سکتے ہیں ۔


اس وقت محکمہ پولیس اور عدلیہ کو بھاری بھرمالی مراعات فراہم کی جارہی ہیں، سہولیات دینے کا واحد مقصد یہ تھا کہ وہ روایتی ڈگر سے ہٹ کر کارکردگی دکھائیں گے اور عوام کو برَوقت انصاف مل سکے گا، سانحہ ساہیوال ہو یا کراچی میں نقیب مسعود کا مقدمہ قتل ہو،ماڈل ٹاؤن لاہور میں قتل وغارت ہو سب مقدمات عدلیہ اور ارباب اختیارات کے لئے ٹیسٹ کیس ہیں۔

اس سے بھی سنگین واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہماری عدلیہ میں ہوتے ہیں ، تنگ آمد بجنگ آمد کے طور پر لوگ انصاف نہ ملنے پر خود ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں،عالمی سطح پر اب ہمارے نظام انصاف کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے،کس قدر افسوس ناک ہے کہ وہ کیمونٹی جو بھاری بھر زرمبادلہ باہر سے بھیجتی ہے اور اس ہی سے ان ادارہ جات کے ملازمین کو مراعات ملتی ہیں وہ ہی اس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔


ہماری عدالتی تاریخ اتنی بھی بانجھ نہیں یہاں ایسے نابغہ روزگار شخصیات رہی ہیں جن کے فیصلہ جات آج تک بول رہے ہیں ،اس ماحول میں رہتے ہوئے غیر مسلم ججز نے اپنا دامن ایسا صاف رکھا کہ مسلم جج صاحبان بھی انکی اہلیت اور منصفی پر رشک کرتے تھے ۔ سورہ الحدید میں اللہ تعالی ٰ نے انبیاء کی بعثت اور آسمانی کتب کے انزال کا مقصد ہی لوگوں میں انصاف قائم کر نے کو قرار دیا ہے،
 انصاف کی بروقت فراہمی ممکن ہو سکتی ہے اگر عدلیہ، پولیس، جیل کے ذمہ داران اخلاص سے اس کو یقینی بنانے کے لئے کوئی سٹریجی بنائیں ، اگر عدلیہ ہی سے معزز جج صاحبان ماضی میں سیاسی مداخلت، سفارش اور رشوت سے دور رہ کر بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا رہے تھے تو آج یہ ممکن کیوں نہیں؟کیا آج ہماری عدالتیں صرف ان متاثرین کو ہی انصاف دینے کی پابند ہیں جن کی بے
 انصافی کے خلاف سوشل میڈیا آواز بلند کرے گا؟ موجودہ حکومت کا توخمیر ہی تحریک انصاف سے اٹھا تھا مگر عوامی سطح پر اس کے عہد میں سب سے زیادہ بے انصافی دیکھنے کو مل رہی ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :