سعد رضوی کی سولو فلائٹ

بدھ 28 اپریل 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہفتہ رفتہ میں ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص پر تشدد واقعات نے سماج کے سنجیدہ حلقوں کو رنجیدہ کر دیا،زیادہ اذیت تو اِن مسافروں کو اُٹھانا پڑی جو زادہ راہ لئے رخت سفر پر اور منزل کے قریب تھے کہ اس ہجوم میں پھنس گئے جوشاہراہات کی بندش کی بدولت تھا، ماہ مقدس میں ایک مذہبی جماعت کی طرف سے اس طرح کے رویہ نے اس نرم گوشہ میں مزید کمی کر دی جو عمومی طور پر مذہب کی محبت میں عوام کے دل میں ہوتا ہے،زنداں دلان لاہور میں جہاں پاکستان بھر سے لوگ آتے ہیں رات بھر ان شاہراہوں پررُسوا ہوئے۔


 چند افراد نے جس طرح ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا وہ خود ایک سوالیہ نشان ہے، سرکار نے سیکورٹی فورسز کو بھی متحرک کیا لیکن پھر بھی دو روز کی ذہنی کوفت سے اہل شہر کو گذرنا پڑا، تحریک لبیک کے یہ درد مند اپنے امیر کی گرفتاری کے خلاف سراپا احتجاج تھے،انکو سرکار نے اس لئے پابند سلاسل کیا کہ انھوں نے ایک معاہدہ پر عدم تعمیل کی پاداش میں ایک مارچ کی کال دی تھی یہ معاہدہ اِنکے والد اور حکومت کے مابین ہواتھا، جس میں ناموس رسالت کی بابت اس سفیر کو دیس نکالا دینا تھا جس کے ملک فرانس میں نبی آخرزماں کی شان میں گستاخی کی گئی تھی، ہر چند دونوں کے مابین مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا لیکن تحریک کے قائدین کے بقول سرکار لیت ولعل سے کام لیتی رہی اور طے شدہ معاملہ کے مطابق اِس ایشو کو رائے سازی کے لئے قومی اسمبلی میں پیش نہ کیا جا سکا تاوقتیکہ سعد رضوی کو احتجاج کی کال دینا پڑی، موصوف اپنے والد کی وفات کے بعد اس تحریک کے سربراہ بنے تھے اس وقت بھی اِنکی جماعت ہی سے اِس چناؤ پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا،لیکن وہ آرزومند تھے کہ سرکار اس معاہدہ کو عملی شکل دے جو انکے والد گرامی کے ساتھ کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)


ڈیڈلائن سے قبل کارکنان کو ماہ مقدس میں سڑکوں کو لانے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اور سرکار نے بھی مذاکرات کا راستہ اپنانے کی بجائے اِنکو فوراًگرفتار کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ۔ احتجاج میں شدت آنے کے نتیجہ میں سیکورٹی فورس کے اہلکار اور تحریک لیبک کے کارکنان بھی میں مارے گئے،آخری معرکہ چوک یتیم خانہ پر ہوا جوابی کاروائی کے طور پر فائرنگ کے نتیجہ میں اس تحریک کے کارکن بھی موت کے منہ میں چلے گئے بعد ازاں سرکار نے اس تحریک سے مذاکرات کئے جس کو وہ دو روز پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی تھی۔


اس جنگ وجدل میں جو منظر نامہ سامنے آیا وہ قابل فکر ہے ایک تو یہ کہ عوامی سطح پر تحریک کی کاروائیوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا، مذہبی طبقہ کی قدرومنزلت میں کمی واقع ہوئی نیز یہ لگا کہ اس تحریک کے کارکنان شتر بے مہار ہیں، ان پر نہ تو اخلاقی قدر اثر کر رہی ہے نہ ہی وہ کسی ضابطہ کو ماننے پر تیار ہیں، اس تحریک کا انتظامی ڈھانچہ بھی تاحال نامکمل ہے کوئی باضابطہ شورائی نظام بھی نہیں ہے، گویا قیادت کا بھر پور فقدان تھا، کیا سعد رضوی اس سے لاعلم تھے؟ اگر ایسا نہیں تھا تو انھیں جذباتی انداز میں اس طرح کال نہیں دینی چاہئے تھی اگر انھیں کامل یقین بھی ہوتا کہ ان کی کال سے درخت کا کوئی پتہ بھی نہیں ٹوٹے گا ،انکے کارکنان پر امن
 رہیں گے تب بھی انھیں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے تھا،ہنگامی طور پر وجود میں آنے والی اس تحریک نے بجا طور ناقابل یقین سیاسی
 کامیابی حاصل ہے اس کے اراکین پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، تو سعد رضوی کو سولو فلائیٹ کی بجائے انکی خدمات لینی چاہئے تھیں، مذاکرات جو سرکار اور ان کے مابین ہوئے تھے اس پر اپنے مذہبی حلقوں کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا، اِنکی مشترکہ کانفرنس کا اہتمام ہوتا تاکہ ایک حتمی موقف سرکار کے سامنے آتا، اسی طرح سرکار کو بھی اس معاہدہ کو اسمبلی کے فلور پر لانا چاہیے تھا تاکہ اراکین کی بحث اور مشاورت سے کوئی ایسا متفقہ لائحہ عمل سامنے آتا جس پر دونوں فریقین راضی ہوتے تودونوں کو آج یہ خفت نہ اٹھانا پڑتی، گویا فریقین کی کم فہمی نے ایک ایسا ماحول بنا دیا کہ فورسز کو اپنے ہی شہریوں پر بندوق اٹھانا پڑی ہے۔


ہمارے ہاں ابھی تک اس نوع کے احتجاج سے نمٹنے کے لئے روایتی طریقہ ہی اختیار کیا جاتا ہے، جبکہ پولیس اود دیگر اداروں کی ٹریننگ کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ اچھی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بناکر شرپسندوں سے اس طرح نمٹا جائے کہ کم سے کم نقصان کا امکان رہ جائے سیدھی گولیاں عوام پر چلانا تو بڑی قابلیت نہیں ہے،امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے چوک یتیم خانہ کے واقعہ پر جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ درست اور بر وقت ہے ۔


ُپرتشدد و ڈیوز جوسوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں ہیں اور یہ رویہ دونوں طرف سے اپنایا گیا ہے اِس دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ مدارس کے طلباء کی سرے سے کوئی اخلاقی تربیت ہوئی ہی نہیں ہے، پولیس کو یرغمال بنا کرنا اِنکو گن پوائنٹ پر احکامات ماننے پر مجبور کرنا کس قدر خوفناک منظر تھا جو پورے عالم نے دیکھا اس کے بعد ہمارا مذہبی طبقہ کس منہ سے ہمدری کا طلب گار ہو سکتا ہے، اسی طرح سیکورٹی فورسز نے بھی اِن سے ایسا سلوک کیا جیسے یہ کسی دوسری ریاست کے شہری ہوں۔


تحریک کے راہنماء نے جیل سے احتجاج ختم کرنے کا پیغام اَس وقت بھیجا ہے جب بہت سے افراد موت کے منہ میں جاچکے تھے،ایک اچھی کاز کے لئے بھیانک طریقہ احتجاج اختیار کر کے تحریک کی قیادت نے سیاسی عدم بلوغت کا ثبوت دیا ہے، اور اپنے ورکر کے جذبات سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے جس کے لئے انھیں اللہ کی عدالت میں بہرحال جوابدہ ہونا پڑے گا۔
محترم قاضی حسین احمد سابق امیر جماعت اسلامی نے مذہبی طبقات کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے اس وقت ملی یکجہتی کونسل قائم کی تھی جب فرقہ واریت عروج پر تھی ، سعد رضوی اپنے مطالبات اور معاہدہ کی پاسداری کے لئے اس پلیٹ فارم سے مثبت کاوش کر سکتے تھے،اس سانحہ کے بعد مذہبی قیادت کا متحرک ہونا اس بات کی علامت ہے کہ تحریک کی قیادت نے اس بڑے مقصد کے لئے اِنکو بھی اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا ہے۔


اس طرح کے پرُ تشدد احتجاج کے بعد لازماً ہو گیا ہے کہ پارلیمنٹ اس ضمن میں قانون سازی کرے کہ کسی بھی احتجاج میں جو کسی بھی سماجی طبقہ کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں کیا جائے اس کے نتیجہ میں قومی ،نجی ملکیت کو کوئی نقصان پہنچے یا کسی کی ہلاکت ہوجائے تو قصاص اور دیت اس سے وصول کی جائے جو اس میں ملوث پایا جائے عدم تعمیل کی صورت میں اسکی قیادت اس کی ذمہ داری قبول کر یگی اور ادائیگی کرنے کی پابند ہوگی، تاہم کسی شہری کو احتجاج سے محروم اس لئے نہیں رکھا جاسکتا ہے کہ یہ اسکا آئینی حق ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :