خطبات کپتان

اتوار 18 نومبر 2018

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ان دنوں ہمارے وزیر اطلاعات زیر عتاب ہیں چیئرمین سینٹ نے انکا داخلہ ایوان بالا میں معافی سے مشروط کررکھا ہے ہمارے ہاں” چوہدری حضرات“ کی جانب سے سرعام معافی مانگنے کی روایت زیادہ پختہ نہیں اگر کوئی چوہدری وزیر شذیر ہوتو معاملہ زیادہ حساس ہوجاتا ہے دیکھنایہ ہے کہ کامیابی کس کا مقدر ٹھہرتی ہے وزارت کا قلم دان سنبھالنے کے باوجود موصوف اپنے جذبات قابو رکھنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

فرط جذبات کی یہ مشق انہیں کسی نہ کسی کٹہر ے میں لاکھڑا کرتی ہے ان کے دفا ع میں سرکار کو بھی متحرک ہونا پڑتا ہے حالانکہ یہ منصبی ذمہ داری انکی ہے کہ وہ اپنی سرکار کا دفاع کریں دکھائی یوں دیتا ہے کہ حکمران جماعت کے بیشتر ارکان ابھی تک کنٹینر کے سحرسے آزاد نہیں ہوئے ان کا طرز تکلم تاحال اپوزیشن والا ہی ہے۔

(جاری ہے)

انہیں کون سمجھائے کہ عوامی اجتماعات اور پارلیمنٹ میں خطبات کی نوعیت قطعی الگ الگ ہوتی ہے کپتان جی کے خطبات سن کر کبھی کبھار یہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ یہ بھی وزیر اطلاعات ہی کے تحریر کردہ ہیں جن کو پڑھنا کپتان جی کی مجبور ی ہے۔


 ورنہ حجاز مقدس کی سرزمین پے کھڑے ہوکر سرمایہ داری کی عالمی کانفرنس میں انکا لب و لہجہ قطعی یہ نہ ہوتا اور وہ اپنی ریاستی خامیوں سے یوں پردہ نہ اٹھاتے ہم دیر تلک یہ سوچنے پے مجبور ہوئے کہ کپتان جی بطور سربراہ مملکت حاضرین سے مخاطب ہیں یا اپوزیشن قائد کے طور پر فرط جذبات کے ہاتھوں مجبور ہیں ہماری یہ خواہش قطعی نہیں تھی کہ وہ سرمایہ کاروں کو سبز باغ دکھاتے لیکن جغرافیائی اہمیت کی حامل ایٹمی قوت کو اتنا بھی ” انڈراسٹیمیٹ“ نہ کرتے کہ کوئی سرمایہ کی پوٹلی اٹھا کر ادھر رخ کرنے سے قبل کئی بار سوچتا۔


 سی پیک منصوبہ کی موجودگی ون بلٹ ،ون روڈ کے تناظر میں ان کے پاس سرمایہ داروں کو مرغوب کرنے کا کافی سامان موجود تھا بشری کمزوریوں کی طرح ریاستی خامیاں ہر ریاست کا خاصہ ہوا کرتی ہیں قیادت کا کام ہی اندھیروں میں روشنی کی کرن کو نمایاں کرکے دکھانا ہوتا ہے۔ممکن یہ کہ انکے مشیران کرام نے اس طرز کی تقریر کے تناظر میں قرض کی وصولی کا نادر نسخہ آزمانے کیلئے انہیں اس راہ پر ڈال دیا ہوورنہ بہت سے دل پھینک سرمایہ کار ہماری سرزمین پے آنے کو بے تاب دکھائے دیتے۔


کپتان جی کے چین یاترا سے قبل ہی ان کے وزراء کرام نے سی پیک اور سرمایہ کاری کے حوالہ سے ماحول کو اتنا پراگندہ کردیا تھا کہ بالآخر چیف آف آرمی سٹاف کو مداخلت کرنا پڑی جو دورہ چین کے بعد ماحول کو سازگار بنانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے۔
کپتان جی نے چین جاکر بھی ریاستی خامیوں کو نمایاں کرتے رہے بدعنوانی کی گردان ان کے ہر خطاب کا حصہ رہی ہماری سمجھ میں یہ نہیں آسکا کہ موصوف اسکا رونا رورہے ہیں یا اس کے خاتمے کے لیے مدد کے طلب گار ہیں ایسی ریاست جو کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کاعملی ثبوت دے چکی ہے اس پے کھڑا ہوکر اپنی ہی گورننس میں سے کیڑے نکالنا کونسی دانشمندی ہے ؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ موصوف ایسی پر مغز تقریر فرماتے کہ تبدیلی والی سرکار کے نئے ماحول میں سرمایہ کار کشاں کشاں چلے آتے انہیں یقین ہوجاتا کہ اب اچھی گورننس ہی اس ریاست کی شناخت ہوگی۔


سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے آسیہ نامی خاتون کے خلاف معروف مقدمہ کے فیصلہ کے بعد موصوف قوم سے مخاطب تھے ان کے لب و لہجہ سے دکھاتی دیتا تھا کہ” خطبات کپتان“ قوم کو متحد کرنے کی بجائے منتشر کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے اس حساس مقدمہ کے فیصلہ کے حوالہ سے سرکار کو قبل از وقت ہوم ورک کرلینا چاہتے تھا۔ مذہبی طبقات نے ان کے خطاب کو دھمکی آمیز قرار دیا او ر ردعمل کے طور پر اس کے منفی اثرات سماج پر نمایاں ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ قومی املاک بھی نذر آتش کی گئیں۔

زیادہ مناسب تھا کہ قومی خطاب سے قبل وہ معتدل قسم کے مذہبی راہنماؤں سے مشاورت کرتے اور از سرنو مقدمہ کا جائزہ لینے کیلئے وکلاء کے پینل کا عندیہ دیتے تو حالات یکسر مختلف ہوتے ۔ بالآخر انہیں عوامی ردعمل کے سامنے جھکنا پڑا اور نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کے مطالبہ پر معاہدہ فریقین کے مابین طے ہوا اس طرز عمل پے انکی سابقہ زوجہ محترمہ بھی خاموش نہ رہ سکیں مذہبی جماعتوں کے ساتھ معاہدہ کی باز گشت لندن تک سنائی دی۔

دلیرانہ خطاب کے بعد بزدلانہ معاہدہ کو موصوفہ نے صرف تنقید بنایا۔
نجانے کیوں کپتان جی کی ٹیم ” پہلے بولو پھر سوچو “ کی پالیسی پر گامزن ہے اسی کا ہی فیض ہے کہ کپتان جی کو ہر فورم پر خفت اٹھانا پڑ رہی ہے یار لوگ اسکو ” یوٹرن “ کا نام دیتے ہیں کپتان جی دور کی کوڑی لائے ہیں اور نادر فرمان جاری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یوٹرن نہ لینے والا بیوقوف ہے اگر ٹیلر اور نپولین یوٹرن لیتے تو شکست سے دو چار نہ ہوتے ہمیں کپتان جی نے اک نئے وسوسے میں ڈال دیا ہے اب تاریخ پلٹنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہمیں ان فاتحین کو تلاش کرنا ہے جو ” یوٹرن “ لے کر کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں کپتان جی کے خطبات اور بیانات سے سابق صدر کے ارشادات سے صداقت کی بو آرہی ہے جس کے خیال میں کھلاڑی ریاستی امور کو اس انداز سے نہ سمجھ سکتا نہ دیکھ سکتا ہے جس طرح اک سیاستدان انجام دیتا ہے اب تو چیف جسٹس بھی موجودہ سرکار کی کارکردگی پر انگلی اٹھارہے ہیں۔


ہمیں اک سیاسی جماعت کاوہ بدترین دو ر یاد آرہا ہے جس میں صدر مملکت سے وزراء کرام تک بھی بدعنوان طرز حکومت کی شہرت پا گئے تھے اس عہد میں لوڈشیڈنگ عروج پر تھی دہشت گردی کا راج تھا قومی ادارے تباہی کے دہانے پر تھے اس کے باوجود اس سرکار کے وزیر اطلاعات بڑی متانت سے اپنی سرکار دفاع کرتے کڑی سے کڑی تنقید کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے مثبت انداز میں اسکا جواب دیتے مخالفین کی قدو منزلت میں بھی کوئی کمی نہ آنے دیتے سیاسی جماعت کے خمیر سے اٹھی سیاسی تربیت ہی نے انہیں یہ مقام عطا کیا تھا پیپلز پارٹی دور کے وزیر اطلاعات آج بھی سیاسی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھتے جاتے ہیں۔


کپتان جی اور ان کی ٹیم دھرنوں میں دیئے گئے وقت میں سے آدھا بھی پارلیمنٹ میں صرف کرتی تو انہیں پارلیمانی امور سے واقفیت ضرور ہوتی اور انہیں سینٹ میں داخلہ کی بندش جیسی اذیت کا سامنا نہ ہوتا۔
کپتان جی اور انکی ٹیم کی توجہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو کی طرف مبذول کروانا چاہتے جو ان کے ساتھ پہلی دفعہ پارلیمنٹ میں بطور ممبر براجمان ہیں لیکن ان کے لب و لہجہ میں خاصی پختگی پائی جاتی ہے و ہ خوبصورت اور پروقار اندا ز میں حاضرین سے مخاطب ہوتے اور عوامی مسائل کااحاطہ کرتے ہیں کپتان جی اور انکی ٹیم نے اگر پارلیمانی انداز خطابت نہ اپنایا تو سرکار کو وزراء کرام بوجھ اٹھانا مشکل ہوجائے گا اک نوزائیدہ حکومت کیلئے اس سے بڑی سبکی کیا ہوگی کہ اپنی حکومت ہی میں ان کے وزراء پر پارلیمنٹ کے دروازے بند ہوجائیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :