سیاسی اسلام

اتوار 27 اکتوبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ارض پاک میں جب سے آزادی مارچ کا غلغلہ اٹھا ہے اور اس میں دینی مدارس کے بچوں کی شمولیت کی باز گشت سنائی دے رہی ہے بعض طبقات اسکو مذہبی کارڈ کے تناظر میں دیکھ کر سیخ پا ہو رہے ہیں جبکہ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ یہاں لسانی سے لے کر علاقائی تک کے کارڈ ہماری سیاست میں استعمال ہوتے رہے بڑے آمر اس طرز کی شخصیات کو گلدستے پیش کرتے رہے ان میں سے بعض پر تو قومی پرچم جلانے کا بھی الزام لگا جبکہ اس مارچ کی قیادت کرنے والی شخصیت ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہے تو پھر یہ خوف کیسا؟ اک ایسی ریاست جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہو اس میں مذہبی کارڈ کا واویلا کیوں؟
ہمارے کپتان بھی تو تواتر کے ساتھ مدینہ ریاست کا تذکرہ کرتے ہیں کیا یہ مذہبی کارڈ استعمال نہیں کرتے؟ کھلی حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ ریاست جس کا بار ارباب اختیار نے اٹھایا ہے اگر اپنی اصلی روح اور سپرٹ کے ساتھ وجود میں آ جاتی ہے تویہ نہ صرف اہل وطن بلکہ پوری انسانیت کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوگی، ہم ورطہ حیرت میں ہیں کہ مغرب اور روشن خیال طبقہ نے اس پر آسمان سر پے نہیں اٹھایا شاید اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں کامل یقین ہے جو ٹیم کپتان کے ساتھ ہے اس میں ایسی ریاست کے قیام کی صلاحیت ہی نہیں، ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جب سیاسی اسلام جیسے عرف عام میں”political Islam“ کہا جاتا ہے ا اہل دانش نے جب بھی اسے بطور نظام دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی تو تمام لبرل اور روشن خیال اسکی مخالفت میں اکھٹے ہو گئے،حالانکہ سب سے پہلے یہ اصطلاح1940 ہی میں یورپ میں وجود میں آئی، اسلامی دنیا کے معروف دانش وروں میں سے امام غزالی، سید قطب شہید،حسن البناء اور جنوبی ایشاء میں سیدابو الاعلی مودودی نے اسکا تصور پیش کیا، نسل نو کی آگاہی کے لیے عرض کرتے چلیں کہ” سیاسی اسلام“ کوئی ڈراونا نظام نہیں بلکہ ریاست مدینہ کی ہی عملی شکل ہے جس میں مساوات سے لے کر قانون کی حکمرانی تک اور عدل و انصاف سے لے کر وسائل کی منصفانہ تقسیم تک اک آزمودہ نظام موجود ہے۔

(جاری ہے)


 اگرچہ اک کالم میں اسکا احاطہ کرنا تو نا ممکن ہے تاہم اک طائرانہ نگاہ ان حکمرانوں اور ریاستوں پے ڈالتے ہیں جنہوں نے اس سے انحراف کر کے اپنے مطلب کی اصطلا حیں ایجاد کیں اور اپنی ریاستوں میں پناہ لی ،ان میں پاکستان،عراق،انڈونیشیاء، یمن،شام اور دیگر نے ” اسلامک سوشلزم“ کو اپنایا، اس کے روح رواں سمجھتے تھے کہ سیاسی اسلام سے شدت پسندی آئے گی لہذا مساوات،سخاوت، ارو جدیدیت کے نام پر اسکو مقتدر طبقہ نے اپنے ہاں رائج کیا،جب ستر کی دہائی میں تیل کی حامل ریاستوں میں معاشی بحران آیا تو عوام کی جانب سے” اسلام ازم “کی حمایت کی باز گشت سنائی دی کہاجاتا ہے کہ اسلامی سوشلزم کو پہلی دفعہ روس میں سوشلسٹ انقلاب سے پہلے وہاں کی مسلم کیمونٹی نے اپنی شناخت کے لیے اس کو متعارف کروایا مگر سامراج کے حمایت یافتہ سربراہان مملکت نے اس کو اپنے مخالفین پر عرصہ حات تنگ کرنے اوراپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کے لیے اس نام نہاد سسٹم کا سہارا لیا حلانکہ اس طرز کی حکمرانی سے اسلام کا دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا،اسی راہ پر چلتے بعد ازاں شہنسشاہ ایران نے مارکس، سوشلزم کے نظریات کو اپنی ریاست میں طاقت کے بل بوتے پر فروغ دیا مگر یہ فکر عوام میں سیرایت نہ کر سکی اور اسلامی انقلاب نے اپنی جگہ بنا لی، ہر چند کچھ مدت کے بعد سوشلزم خود اپنی موت مر گیا مگر ذہنی غلامی کے سبب مسلم حکمران بھی اس کے رسیا نکلے،ان نظریات کے ساتھ نرم گوشہ رکھنے والے اکثر نام نہاد دانشور سرد جنگ کے خاتمہ اور افغان جہاد کو” سیاسی اسلام“ سے نتھی کرتے ہیں جو درست نہیں کیونکہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ہی ان قوتوں نے قومیت کا نعرہ بلند کیا تھا اور اس ریاست کے حصے بخرے کرنے میں ہر طرح کی معاونت کی تھی اس کی کوکھ ہی سے اسلامک سوشل ازم کو جنم دے کر اسکی فیوض برکات سے اس درو کے حکمرانوں کو آگاہ کیا تھا اس کے برعکس سیاسی اسلام کا نظام امت وحدہ اور باعمل خلافت کا تصور پیش کرتا ہے شرق وسطی اور ترکی میں ان طاقت ور حکمرانوں کی تمام تر سرگرمیاں قو میت کے فروغ اور اپنے مفادات کے گرد گھومتی تھیں یہ بلا شرکت غیرے طویل مدت تک نام نہاد جمہوریت کے نام پر حکمرانی کرتے رہے صدام حسین نے انپی سیاسی پارٹی ”بھات“ بنائی عربی زبان میں اس کے معنی احیاء کے ہے گویا وہ اپنی دانست میں اسلامک سوشلزم کو سیاسی اسلام کے متبادل کے طور پر دنیا کے سامنے رکھ رہے تھے،کرنل قذافی مرحوم بھی ان کے نقش قدم پے چلے آج ان ریاستوں کے عوام کس حال میں ہیں پورا خطہ ہی سول وار سے متاثر ہے یہ اسی اسلامک سوشل ازم کا فیض ہے۔


کچھ اہل علم ان تمام تحریکوں کو بھی سیاسی اسلام سے نتھی کرتے ہیں جو طاقت کے زور پر اپنے نظریات دوسروں پے مسلط کرتے ہیں یہ بھی حقیقت کے بر عکس ہے باوجود اس کے سوشل ازم کے نظریہ کو بزور بازو ریاستوں پے ٹھونسا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب روس کی شکست و ریخت ہوئی تو غیر فطری بنیادوں پے قائم نظام زمین بوس ہو گیا اس کا الزام بھی” جہاد“ پر ڈالا جاتا ہے اصل حقییت یہ ہے کہ افغانستان میں انقلاب” saur“ ہی خرابی کی بنیاد بنا جس کی بنیاد پر اسلامی سوشل ازم کوسماج میں فروغ دینا تھا جبکہ افغان معاشرہ کی فیبرکس اس کو نا پسند کرتی تھی افغانی مشاہیر جلا ل الدین افغانی تو سیاسی اسلام کے حامی تھے۔


تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی حمایت سے ریاست حاصل کرنے کے بعدسعودی عرب میں سعودخاندان نے اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی کچھ اسلامی قوانین متعارف کروائے سیاسی اسلام سے انھیں بھی خوف آرہا ہے ان کی دلچسپی اس نظام سے ذیادہ اپنی شہنشائیت بر قرار رکھنے میں ہیں فی زمانہ جن مشکلات سے دو چار یہ حالات خود اسکی شہادت دیتے ہیں۔
 اس اصطلاح کے خوف میں مبتلا اک طبقہ نے اپنے مفاد کی خاطراسلام سے متعلقہ نئی جہت کو ”مارکیٹ“ میں لانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی اور ” لبرل اسلام “کا خاکہ عالم کے سامنے رکھ دیا جس کے روح رواں کمال اتا ترک تھے ایران، ترکی، افغانستان نے اسکو اپنے ہاں رائج کر نے کی جسارت کی ان کا مطمع نظر یہ تھا کہ قرآن اور شریعت کو اداروں کی وساطت سے نافذ کیا جائے ریاست اور حکومت اس سے علیحدگی اختیار کرے عقائد کا معاملہ ذاتی قرار پائے، گویا مذہب رسومات کا ملغوبہ بن جائے ۔


ہمارے ہاں سنگین نوعیت کی جو قتل و غارت ہوئی اس کے حالیہ فیصلہ سے جو غم وغصہ عوام میں پایا جاتاہے یہ بدیشی قوانین کے اطلاق کے سبب ہے، بنگلہ دیش جسکی حکومت کو اپنے لبرل ہونے پے ناز ہے اس میں گذشتہ سال میں اک ہزار سے زائد بچیوں کو ریپ کا سامنا تھا، ہمارے ہاں بھی بچوں کے ساتھ جرائم کی وجہ اسلامی سزاوں کا عدم نفاذ ہے۔ہماری سماجی مشکلات کی بڑی وجہ اس نظام سے عدم استعفادہ
 ہے جس کو دیگر ممالک نے فلاحی ریاست کے طور پر جزوی اعتبار سے نافذ کر رکھا ہے جسے ہم سیاسی اسلام سے معصوم کرتے ہیں جس میں معاشرہ کاہر طبقہ پناہ لے سکتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :