"استاد اور آن لائن ایجوکیشن، ایک بیماری"

ہفتہ 23 جنوری 2021

Laiba Sadaf

لائبہ صدف

ہم سب کرونا کی وجہ سے کسی نہ کسی مشکل کی زد میں ہیں، کوئی مالی تو کوئی ذہنی طور پر مشکل کا سامنا کر رہا ہے اور ہم طالب علم آن لائن ایجوکیشن نامی بیماری، جو ایک خطرناک ڈیسآرڈر ہے، میں مبتلا ہیں۔ ہمیں ہزاروں مسائل کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یونیورسٹی میں ایک معمول کے مطابق جاتے، آتے اور کام کرتے تھے جبکہ سسٹم آن لائن ہونے کے سبب صبح سے شام کانوں میں (میری اماں جان کے بقول) ٹوٹیاں لے کر لیکچر سنتے ہیں، کچھ سمجھ آتا ہے اور کچھ سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔

اگر کہہ دیا جائے کہ میڈم سمجھ نہیں آ رہا تو کہتی ہیں، دوبارہ پڑھیں، غور سے سنیں، گوگل کرلیں۔ شام سے رات ہمیں مائیکروسافٹ ورڈ اور پاؤرپوائنٹ سے مذاکرات میں گزارنی پڑتی ہے۔ بجلی، انٹرنیٹ، لیپ ٹاپ، موبائل فون کے مسائل ایک طرف مگر گھڑی کے مطابق رات 12 بجے سے پہلے اسائنمنٹ جمع کروانا بالکل موت کے کنویں میں سائیکل چلانے کے مترادف ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے اساتذہ کے لیے بھی آن لائن پڑھانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ہمارے لئے پڑھنا مگر چونکہ وہ اتھارٹی ہیں، وہ پروفیسر ہیں، وہ حق سمجھ کر پچھلے کئی مہینوں سے ہماری حق تلفی کر رہے ہیں۔
مخاطب ہوں اپنے 80 فیصد اساتذہ سے جو ہم سے اور ہمارے انٹرنیٹ سمیت سترہ سو مسائل سے بے زار ہو چکے ہیں اور "دوبارہ مجھ سے پوچھنے مت آئیے گا" تک کے الفاظ استعمال کر چکے ہیں۔

باقی 20 فیصد اساتذہ حضرات کی مشکور ہوں کہ انہوں نے اس بات کو سمجھا کہ آن لائن ایجوکیشن بیماری نے ہمارے دماغ پر گہرا اثر مرتب کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پڑھائی کرنے میں کچھ دشواری بھی پیش آۓ گی۔ میں تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمیں اس مشکل وقت میں بہت تحمل مزاجی کے ساتھ ہر سوال کا جواب دیا اور بار بار دیا۔
اس بیماری (آن لائن ایجوکیشن) کے اثرات کا پتہ تب چلا جب ہمارے معزز ایجوکیشن منسٹر جناب شفقت محمود صاحب نے شفقت کو عداوت میں بدلتے ہوئے ملک میں تعلیمی اداروں کو کھولنے اور آن کیمپس پیپرز کا اعلان کردیا۔

ہر گلی کوچے سے آن لائن ایجوکیشن بیماری میں مبتلا طالب علم نکلنا شروع ہوۓ اور یونیورسٹیوں کے باہر مجمع لگا کر "ہم آن لائن پیپر چاہتے ہیں" کے نعرے لگانے لگے۔ اداروں کی بڑھتی ہوئی بدنامی کو دیکھتے ہوئے کئی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ طلبہ کے مطالبات مان چکی ہے اور کئی جگہ انتظامیہ کا سر خم ہونا ابھی باقی ہے۔
آن لائن ایجوکیشن ڈیسآرڈر میں مبتلا افراد کی کچھ علامات جو میرے ناقص علم میں آئیں ان میں کاہلی اور سستی، میڈم/سر آپکی آواز نہیں آرہی، میں لیکچر نہیں لے سکا انٹرنیٹ چلا گیا تھا (حالانکہ اصل میں، میں بازار چلا گیا تھا)، ہمیں آن لائن پڑھایا گیا ہے،آن لائن پیپر لیں (ہم نے پڑھا نہیں ہے تو کاپی پیسٹ کر کے نمبر لینے ہیں) جیسی علامات سرِ فہرست ہیں۔

جو طلبہ میری تحریر پڑھ رہے ہیں انہیں ان علامات کا بخوبی اندازہ ہو رہا ہو گا۔
میرا سوال ہے کہ کام چوری سے آپ چاند پر قدم رکھ لیں گے؟ آن لائن پیپر سے پاس تو ہو جائیں گے مگر زندگی میں پاس کس طرح ہوں گے؟ خود سے سوال کریں کہ کیا آپ اس ملک کا اچھا مستقبل ہیں؟ یا بننے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اساتذہ اکرام سے انتہائی معذرت کے ساتھ سوال ہے کہ کیا آپ ارسطو، اقبال، سر سید احمد خاں، اشفاق احمد اور دیگر عظیم الشان اساتذہ اکرام کی صفات پر عمل کر رہے ہیں؟ یا اے-سی، ہیٹر والے کمرے میں بیٹھ کر " اِٹس ناٹ مائی پرابلم" کی دھونس جما رہے ہیں؟
کل جب اپنی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو احتجاج کرتے طلبہ سے مذاکرات کرتے دیکھا تو شرمندگی محسوس ہوئی کہ ہم تہذیب بھول کر کس راہ نکل آئے ہیں؟ ہمارے ورثہ جو استاد کے سامنے ادب میں سر نہ اٹھاتے تھے، ہم کس صورت کامیاب ہو سکتے ہیں؟
"اردو ادب کے بہترین ادیب و استاد اشفاق احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ اٹلی میں مجھے ٹریفک چالان ہوا، مصروفیات کی وجہ سے چالان ادا نہ کر پایا۔

ایک ہفتہ بعد مجھے کورٹ بلایا گیا اور مجھ سے سوال کیا کہ تم نے ایک ہفتے کے اندر چالان ادا کیوں نہ کیا تو میں نے جواب دیا کہ صاحب میں استاد ہوں، آج کل اسکول میں پرچے ہورہے ہیں، ابھی میں آگے بول ہی رہا تھا کہ جج صاحب اٹھ کر بولے،
 (Teacher is in the Court)
 یہ کہنا تھا کہ کورٹ میں موجود تمام افراد نے کھڑے ہوکر مجھ سے معافی مانگی‘ سمیت جج صاحب کے اور پولیس افسر جس نے چالان کا ٹکٹ دیا تھا۔

جج صاحب نے حکم دیا کہ اگر آئندہ کوئی استاد کورٹ میں نظر آیا تو پولیس والوں پر باقاعدہ کیس چلایا جائے گا اور جج صاحب مجھے میری گاڑی تک چھوڑنے آئے اور بہت معافی مانگی بس پھر میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ ہم سے کیوں اتنا آگے نکل چکے ہیں۔"
آج یہ واقعہ پڑھا تو میں حیران رہ گئی، اپنے معاشرے کے سوچ اور اساتذہ کا رویہ جب تصور میں آیا تو افسوس کا لفط بہت چھوٹا لگا۔


یہ گھڑی سب کے لیے یکساں کٹھن ہے۔ جس پر جو بیت رہی ہے یہ کوئی دوسرا نہیں جان سکتا۔ میری درخواست ہے سب معزز اساتذہ سے، اپنے علم کے چراغ سے طلبہ کو روشن کریں، آگاہی پھیلائیں اور نوجوان نسل کو بہتری کی راہ پر گامزن کریں تاکہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکے۔ اللہ ہماری قوم کی حفاظت فرمائے۔
اپنی تحریر کا اختتام اس شعر سے کرنا چاہوں گی؛
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :