تعمیر مسجدِ قُباء

جمعہ 2 جولائی 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

قباء میں رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ و آلہ وسلم کا نزول 12 ربیع الاول یوم دو شنبہ کو ہوا ۔ یہی تاریخ اسلامی کی ابتداء ہے ۔ حضرت علی المرتضٰی رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ جو آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی روانگی کے تین دن بعد مکہ سے چلے تھے یہاں آ ملے اور یہیں رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مسجد کی بنیاد رکھی جس کی شان میں یہ آیت وارد ہوئی ۔


“البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے زیادہ لائق ہے کہ تو اس میں کھڑا ہو ۔ اس میں وہ مرد ہیں جو پاک رہنے کو دوست رکھتے ہیں اور الّٰلہ پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے “۔
کلثوم بن ہدم کی ایک افتادہ زمین تھی جہاں کھجوریں خُشک ہونے کے لیۓ پھیلا دی جاتی تھیں ۔ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے یہ زمین لے کر مسجد مذکور کی بُنیاد رکھی ۔

(جاری ہے)

اس مسجد کی تعمیر میں دیگر اصحاب کے ساتھ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام خود بھی بغرض تشویق و ترغیب کام کرتے تھے ۔ شموس بنت نعمان انصاریہ مدنیہ کا بیان ہے کہ میں دیکھ رہی تھی کہ “ رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم اتنا بھاری پتھر اٹھاتے کہ جسم اطہر خم ہو جاتا اور بطن شریف پر مجھے مٹی کی سفیدی نظر آ جاتی “۔
آپ کے اصحاب میں سے اگر کوئی عقیدت مند آ کر عرض کرتا ۔

“ یا رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر فدا ! چھوڑ دیجیۓ ۔ میں اٹھاتا ہوں “۔
 تو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ۔
“ نہیں ۔ تم ایسا اور پتھر اٹھا لو ۔ اور خود اسی کو عمارت میں لگاتے “ ۔
اس تعمیر میں حضرت جبرئیل آپ کو سمت قبلہ بتا رہے تھے ۔ اسی لیۓ کہا جاتا تھا کہ اس مسجد کا قبلہ اعدل و اقوم ہے ۔
حضرت عبدالّٰلہ بن رواحہ خزرجی شاعر بھی تعمیر مسجد میں شامل تھے اور کام کرتے ہوۓ یوں کہتے جاتے تھے :۔


“وہ کامیاب ہے جو مسجدیں تعمیر کرتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے ۔ اور رات کو جاگتا رہتا ہے ۔”
آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہر قافیہ کے ساتھ آواز ملاتے جاتے تھے۔
قباء میں چار ( چودہ یا بیس ) روز قیام رہا ۔ یہاں سے جمعہ کے دن مدینہ کو روانہ ہوۓ ۔ مہاجرین و انصار ساتھ تھے ۔ انصار کے جس قبیلہ پر سے گزر ہوتا ۔ اس کے سر برآوردہ  عقیدتمند عرض کرتے ۔

“ یا رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ! ہماری نصرت و حمایت میں اتریے “ ۔
 آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم اظہارِ منت و دعاۓ خیر کے بعد فرماتے کہ
 “ میرا ناقہ مامور ہے ۔ اسکا راستہ چھوڑ دو “ ۔
راستے میں بنو سالم خزرجی کے محلہ میں جمعہ کا وقت آ گیا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے وادئ ذی صلب کی مسجد میں نماز جمعہ مع خطبہ ادا کی ۔

یہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا جمعہ اور پہلا خطبہ تھا ۔ اس طرح بنی بیاضہ ، بنی ساعدہ اور بنی حارث بن خزرج سے گزرتے ہوۓ بنی عدی بن نجار میں پہنچے ۔ جو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے ننہال تھے ۔ سلیط بن قیس نجاری خزرجی وغیرہ نے ننہالی رشتہ کو یاد دلا کر اقامت کے لیۓ عرض کیا۔ مگر ان کو بھی وہی جواب ملا ۔ بعد ازاں آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا ناقہ محلہ مالک بن نجار میں اس جگہ بیٹھ گیا ۔

جہاں اب مسجدِ نبوی ہے ۔ پھر اُٹھ کر قدرے آگے بڑھے ۔ اور مڑ کر پہلی جگہ بیٹھ گئے ۔
 آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :۔
“ انشاءالّٰلہ یہی منزل ہے “ ۔
حضرت ابو ایوب انصاری  نجاری  خزرجی آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم  کا سامان اٹھا کر اپنے گھر لے گئے۔ اور حضور علیہ الصلٰوۃ  والسلام  بھی وہیں تشریف فرما ہوۓ ۔


حضور اقدس صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے جو خوشی مدینہ میں مسلمانوں کو ہوئی ۔ اس کا بیان نہیں ہو سکتا ۔ حضورِ انور کی سواری نزدیک پہنچی تو جوش مسرت کا یہ عالم تھا کہ پردہ نشین عورتیں چھتوں پر نکل آئیں اور یوں گانے لگیں :۔
“ ہم پر چاند نکل آیا
وداع کی گھاٹیوں سے
ہم پر خدا کا شکر واجب ہے ۔
جب تک دعا مانگنے والا دعا مانگے “
آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے ناقہ کا بیٹھنا تھا کہ بنو نجار کی لڑکیاں دف بجاتی نکلیں اور یوں گانے لگیں :-
“ ہم بنو نجار کی لڑکیاں ہیں ۔

اے نجاریو ! محمد صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کیسے اچھے ہمساۓ ہیں “ ۔
آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر ان لڑکیوں سے پوچھا :- “ کیا تم مجھ کو دوست رکھتی ہو “؟ وہ بولیں ۔ ہاں ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔ “ میں بھی تم کو دوست رکھتا ہوں “ ۔
اسی خوشی میں زن و مرد ، چھوٹے بڑے گلی کوچوں میں پکار رہے تھے ۔ جَاءَ رَسُولُ الّٰلہِ ۔

جَاءَ نَبِیُّ الّٰلہِ ۔ حبشی غلام آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم میمنت لزوم کی خوشی میں ہتھیاروں سے کھیل رہے تھے ۔ انسانوں پر کیا موقوف ہے ۔ وحوش بھی اپنی حرکات و سکنات سے خوشی کا اظہار کر رہے تھے ۔
جب مدینہ میں آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام کا انتظام ہو چکا ۔ تو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے زید بن حارثہ اور اپنے غلام ابو رافع کو کچھ درہم اور دو اونٹ دے کر  مکہ میں بھیجا کہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے عیال کو مدینہ میں لے آئیں ۔

اسی وقت حضرت ابو بکر صدیق  رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے عبدالّٰلہ بن اریقط وئلی ( جو کہ مکہ کو واپس جا رہے تھے ) کے ہاتھ اپنے صاحبزادے عبدالّٰلہ کو رقعہ دے دیا کہ میرے عیال کو مدینہ میں لے آؤ ۔
آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سے حضرت زینب کو ان کے خاوند ابو العاص  نے آنے نہیں دیا ۔ حضرت رقیہ حبشہ میں تھیں ۔ اس لیۓ زید و ابو رافع حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادیوں حضرت اُمِ کلثوم و فاطمہ اور زوجۂ محترمہ حضرت سودہ کو اور اُم ایمن زوجۂ زید اور اسامہ بن زید کو لے آۓ ۔

اور ان کے ساتھ عبد الّٰلہ بن ابو ابکر حضرت عائشہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا اور ان کی والدہ اُمِ رومان اور حضرت اسماء بنت ابو بکر کو لاۓ ۔ یہ سب حارثہ بن نعمان کے ہاں اُترے ۔
حضور اقدس صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام سات ماہ تک حضرت ابو ایوب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے ہاں ہی رہا ۔ جب مسجد نبوی کے ساتھ حجرے تیار ہو گئے ۔تو نقلِ مکان فرمایا ۔ اس عرصہ میں بنو نجار نے مہمانی کا حق کما حقہٗ ادا کیا ۔ حضرت ابو ایوب اور سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ نے خصوصیت سے اس میں حصہ لیا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :