ہجرت کا تیسرا سال

جمعہ 23 جولائی 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

عبداللہ بن ابی بن سلول کو مدینہ والے اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے سے اس کی بادشاہت خاک میں مل گئی تھی ۔ اُس کو مسلمانوں سے دِلی عداوت تھی ۔ مگر چونکہ آدمی عقلمند تھا ۔ اُس نے اپنی عداوت کو چھپایا ۔ پھر قریش مکہ کے ساتھ ساز باز شروع کر کے مدینہ والوں کو علانیہ مسلمانوں کے مقابلے پر اُبھارنا چاہا ۔

مگر ناکام رہا ۔ اب مسلمانوں کی فتح بدر کو دیکھ کر وہ بہت مرعوب ہوا ۔ اور بظاہر اسلام قبول کر لیا ۔
لیکن دل میں چونکہ حسد اور دشمنی رکھتا تھا ۔ لہٰذا اس ظاہری طور پر داخلِ اسلام ہونے سے اس کو کوئی فائدہ نہ پہنچا ۔ بلکہ اُس کی عداوت و دشمنی مسلمانوں کے لیۓ پہلے سے زیادہ خطرناک و مضرت رساں ثابت ہوئی ۔ اس کے زیرِ اثر جس قدر مشرکین ابھی تک شرک پر قائم اور مسلمانوں کے دشمن تھے ۔

(جاری ہے)

ان کو بھی اس نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر لینے کا مشورہ دیا ۔ اس قسم کے لوگوں کا وہ سردار اور پیشوا بنا رہا ۔ اس گروہ کو منافقین کا گروہ کہا جاتا ہے ۔ ان منافقوں کے گروہ میں بعض یہودی بھی شامل ہو کر اور ظاہری طور پر مسلمان بن کر فائدہ اُٹھانے لگے ۔
یہودی بھی مسلمانوں کے اقتدار اور مذہب اسلام کی اشاعت کو بہت مکروہ سمجھتے تھے ۔ اور اُن کی عداوت عبداللہ بن ابی کی عداوت سے بڑھی ہوئی تھی۔

مدینہ کی متعلقہ بستیوں یا یوں سمجھیۓ کہ مدینہ کے نواحی محلوں میں یہودیوں کے تین قبیلے بہت طاقتور تھے ۔ اور اپنی جُدا جُدا گڑھیاں یا قلعے رکھتے تھے ۔ ان تینوں قبیلوں کے نام یہ تھے ۔ بنی قینقاع ، بنی نضیر ، بنی قریظہ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں تشریف لاتے ہی جو معاہدہ مرتب فرمایا تھا۔ اُس میں یہ تمام قبیلے یہودیوں کے شامل تھے ۔

قریش نے جس طرح عبداللہ بن ابی کے ساتھ سازباز شروع کی تھی ۔ اسی طرح وہ ان یہودیوں کو بھی برابر اپنا ہمساز بنانے میں مصروف رہے ۔ یہودیوں کو چونکہ مسلمانوں کی ترقی دل سے ناپسند تھی ۔ لہٰذا وہ قریش کی ہمدردی اور مسلمانوں کی بربادی کے لیۓ برابر کوشاں رہے ۔
اب جنگِ بدر کے بعد ان کی عداوت مسلمانوں کے ساتھ اور بھی بڑھ گئی ۔ اور آتشِ حسد میں جل کر وہ کباب بن گئے ۔

جب جنگِ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی تصدیق ہو گئی تو ایک یہودی کعب بن اشرف مدینہ چھوڑ کر مکہ کی جانب چلا گیا ۔ مکہ میں جا کر اُس  نے مقتولین بدر کے نوحے لکھنے اور سُنانے شروع کئے ۔ اور چند روز تک اپنے اشعار سُنا سُنا کر اہلِ مکہ کو آتش انتقام کے بھڑکانے میں مصروف رہا ۔ پھر مدینہ میں واپس آ کر مسلمانوں کی ہجو میں اشعار لکھتا ۔ اور مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتا رہا ۔

یہودی سب کے سب سُود خوار اور بڑے مال دار تھے ۔ قبائلِ اوس اور خزرج یعنی انصارِ مدینہ اِن یہودیوں کے مقروض اور مالی اعتبار سے اُن کے دبیل تھے ۔ یہودیوں کو اپنی دولت اور چالاکیوں پر بھی بڑا گھمنڈ تھا ۔ وہ اپنے آپ کو بڑا معزز اور شریف جانتے اور ہمسایہ قبائل کو جاہل اور بے وقوف سمجھ کر خاطر میں نہ لاتے تھے۔ جنگِ بدر کے بعد وہ پورے طور پر قریش مکہ کے ہمدرد شریکِ کار بن گئے ۔


عبداللہ بن ابی اور یہودیوں کے درمیان دوستی اور محبت قائم ہوئی ۔ اور مسلمانوں کے خلاف مدینہ کے منافقوں اور یہودیوں نے بڑی بڑی عظیم الشان اور خطرناک تدبیریں سوچیں ۔ اور قریشِ مکہ کے مہمات کو کامیاب بنانے کا اہتمام گویا اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ منافقوں اور یہودیوں نے مل کر یہ بھی منصوبہ گانٹھا کہ اول بظاہر مسلمان ہو جاؤ اور پھر یہ کہہ کر ہم نے مسلمان ہو کر دیکھ لیا ہے کہ یہ مذہب اچھا نہیں ہے ۔

مرتد بن جاؤ ۔ اس طرح ممکن ہے کہ بہت سے مسلمان بھی ہمارے ساتھ مُرتد ہو جائیں اور انکی جمعیت منتشر ہو جاۓ ۔
غرض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے لیۓ مدینہ میں اب نہایت سخت اور نئی نئی مشکلات کا سامنا ہوا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کے جلسوں اور مجمعوں میں خود جا جا کر ان کو نصیحتیں کیں ۔ اور فرمایا کہ تم خوب واقف ہو ۔

کہ میں اللہ تعالٰی کا سچا رسول ہوں ۔ اور تم خود اللہ تعالٰی کی طرف سے رسول کے آنے کا انتظار کر رہے تھے ۔ تمھارا فرض تھا ۔ کہ سب سے پہلے میری تصدیق کرتے ۔ اور اپنی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی پیش گوئیوں کو تلاش کرتے ۔ تم انکار اور مخالفت میں ترقی کر رہے ہو ۔ اللہ کے غضب سے ڈرو ۔ ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی اسی طرح عذابِ الٰہی نازل ہو ۔ جس طرح ابو جہل و عتبہ وغیرہ کا انجام ہوا ۔

کہ میدانِ بدر میں ذلیل و نامراد ہو کر مرے ۔
لیکن یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحتوں پر عمل نہ کیا ۔ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کو کوئی سزا دینی مناسب نہیں سمجھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش یہی تھی کہ وعظ و پند کے ذریعہ ان کو راہِ راست پر لایا جاۓ اور ان گُستاخیوں پر کریمانہ عفوو درگزر سے کام لیا جاۓ ۔


کعب بن اشرف کی شرارتیں حد سے بڑھ چکی تھیں ۔ ایک صحابی محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے ساتھ کچھ اور دوستوں کو ہمراہ لیا اور کعب بن اشرف کو اسکے گھر جا کر قتل کر دیا ۔ کعب بن اشرف کے بعد سلام بن ابی الحقیق یہودی نے اسی قسم کی شرارتوں پر کمر باندھی اور وہ اپنی شرارتوں میں کعب بن اشرف سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کا دشمن بن گیا ۔ کعب کو چونکہ بنو اَوس نے قتل کیا تھا ۔ اس لیۓ اب بنو خزرج کے آٹھ نوجوانوں نے خیبر کا راستہ لیا ۔ جہاں سلام بن حقیق رہتا تھا ۔ وہاں جا کر اُسکو قتل کیا اور بچ کر نکل آۓ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :