شجاعت و قوت عزم واستقلال ( سیرت النبی صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم )

منگل 24 اگست 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ و آلہ وسلم ان اوصاف میں بھی سب پر فائق تھے ۔ ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور و غُل برپا ہوا ۔ جیسے کوئی چور یا  دُشمن آتا ہے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ کا گھوڑا لیا ۔ جو سست رفتار اور سرکش تھا ۔ آپ اسکی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے ۔ اور تلوار آڑے لٹکاۓ ہوۓ جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے ۔

جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ وسلم ان کو راستے میں واپس آتے ہوۓ ملے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے انکو تسلی دی ۔ کہ ڈرو مت ، ڈرو مت ۔ اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔
غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلاور و بہادر بھاگ جایا کرتے تھے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ثابت قدم رہا کرتے تھے ۔

(جاری ہے)

چنانچہ جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزہمت ہوئی ۔ تو یہ کوہِ استقامت اپنی جگہ پر قائم رہے ۔ اور دُشمنوں پر تِیر پھینکتے رہے ۔ جب کمان پارہ پارہ ہو گئی تو سنگ اندازی شروع کی ۔
جنگِ حنین میں صرف چند جانباز آپ کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے ۔ اس نازک حالت میں آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر مدافعت فرمائیں ۔

بلکہ اپنے خچر کو بار بار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھانا چاہتے تھے مگر وہ جانباز مانع آ رہے تھے۔
جب گُھمسان کا معرکہ ہوا کرتا تھا تو صحابہ کرام حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے ۔
 چنانچہ حضرت براء بن عازب کا قول ہے :۔
“ الّٰلہ کی قسم ! جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبی کریم صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی  پناہ ڈھونڈا کرتے تھے ۔

اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا تھا جو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا ۔”
اعلانِ دعوت پر قریش نے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی سخت مخالفت کی ۔ جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا ارادہ کیا ۔
 تو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمایا :-
“چچا جان ! الّٰلہ کی قسم اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں ۔

تب بھی اس کام کو نہ چھوڑوں گا ۔ یہاں تک کہ الّٰلہ اسے غالب کر دے یا مَیں خود اس میں ہلاک ہو جاؤں۔”
ہجرت سے پہلے قریش نے مسلمانوں کو اس قدر ستایا کہ ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا ۔ تنگ آکر انھوں نے آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ان پر بد دُعا فرمائیں ۔ یہ سُن کر آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک سُرخ ہو گیا ۔


اور فرمایا :۔
“ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان پر لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتیں ۔ جس سے گوشت پوست سب علیحدہ ہو جاتا ۔ اور ان کے سروں پر آرے رکھے جاتے اور چیر کر دو ٹکڑے کر دئیے جاتے ۔ مگر یہ اذیتیں ان کو دین سے برگشتہ نہ کر سکتی تھیں ۔ الّٰلہ تعالٰی دین اسلام کو کمال تک پہنچاۓ گا ۔ یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا اور اسے الّٰلہ تعالٰی کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا۔


آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی ۔ غزوۂ احزاب میں جب صحابۂ کرام رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ خندق کھود رہے تھے ۔ تو ایک جگہ ایسی سخت زمین ظاہر ہوئی کہ سب عاجز آگئے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا تو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم بذاتِ شریف خندق میں اُترے اور ایک کدال ایسا مارا کہ وہ سخت زمین ریگ رواں کا ایک ڈھیر بن گئی ۔


رکانہ بن عبد یزید بن ہاشم قرشی مطلبی قریش میں سب سے طاقتور تھا ۔ ایک روز مکہ کے راستے میں حضور نبی کریم صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا ۔  
آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا :۔
 “رکانہ ! کیا تو الّٰلہ سے نہیں ڈرتا ۔ اور میری دعوتِ اسلام کو قبول نہیں کرتا؟”
اس نے کہا کہ اگر مجھے معلوم ہو جاۓ کہ جو کچھ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں وہ سچ ہے ۔

تو میں آپ پر ایمان لے آؤں ۔
آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :۔
“اگر میں تُجھے کشتی میں پچھاڑ دوں تو تُو کیا مان جائیگا کہ میں جو کچھ کہتا ہوں سچ ہے؟”
وہ بولا کہ ہاں ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پکڑتے ہی چاروں شانے چِت گرا دیا ۔ کہنے لگا ۔ محمد صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ مجھ سے دوبارہ کشتی لڑیں ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری دفعہ بھی اسے پچھاڑ دیا ۔

اس پر اس نے کہا ۔ “ محمد صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ! الّٰلہ کی قسم آپ کا مجھے پچھاڑنا عجیب ہے ۔
آپ صلی الَٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :۔
“اگر تو الّٰلہ سے ڈرے اور مجھ پر ایمان لاۓ ۔ تو میں اس سے بھی عجیب امر تجھ کو دکھاتا ہوں ۔”
اس نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ؟
آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :۔
“ کہ یہ درخت جو تو دیکھتا ہے ۔

میں اُسے بلاتا ہوں اور وہ میرے پاس چلا آئیگا ۔”
اس نے کہا کہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم اسے بلائیے ۔ چنانچہ وہ درخت آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر پاس آکر کھڑا ہوا۔ رکانہ نے کہا کہ اسے حکم دیجیۓ کہ اپنی جگہ پر چلا جاۓ ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے وہ اپنی جگہ پر چلا گیا ۔ رکانہ نے اپنی قوم میں جا کر کہا کہ میں نے محمد صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو جادوگر نہیں دیکھا ۔

پھر جو کچھ دیکھا تھا وہ بیان کیا ۔ رکانہ مذکور فتح مکہ میں ایمان لاۓ ۔
 آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم  نے ابوالاسود حمجی کو بھی پچھاڑا تھا جو ایسا طاقتور تھا کہ گاۓ کی کھال پر کھڑا ہو جاتا ۔ دس جوان اس کھال کو اس کے پاؤں کے نیچے سے نکال لینے کی کوشش کرتے ۔ وہ چمڑا پھٹ جاتا ۔ مگر اس کے پاؤں کے نیچے سے نہ نکل سکتا تھا ۔ اس نے رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا “ اگر آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کشتی میں پچھاڑ دیں تو میں آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آؤنگا”
آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پچھاڑ دیا مگر وہ بدبخت ایمان نہ لایا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :