کچھ دنوں کے لیے۔۔۔۔!!

منگل 21 اپریل 2020

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

میں کیا ہوں کیا نہیں ہوں ، کیا تھا کیا نہیں تھا ، کیا ہوں گا کیا نہیں ہوں گا ، ہوں گا بھی سہی یا کچھ نہیں ہوں گا کچھ دنوں کے لیے ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ اور میں ، "میں میں" کو بھول کر "ہم" ہو جائیں ہم ایک ہو جائیں آج ہم ایک جیسی صورتحال سے دوچار ہیں تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ایک ہی سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں ایک دوسرے کے لیے آگے بڑھیں کیونکہ آج ہمیں ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جو ہم میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا تو پھر ہم نے کیوں یہ فرق روا رکھا ہوا ہے ہم کیوں تقسیم سے دوچار ہیں ہم کیوں یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ ہم نے نظر نہ آنے والے اس دشمن کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی تو اللہ‎ نہ کرے ہم سے کئی لوگ ایسے ہونگے جو نظر بھی نہیں آئیں گے جب ہم نظر نہیں آئیں گے تو میں میں کہاں نظر آئے گی آج اگر اپنی میں کو بچانا ہے تو صرف ہم ہو کر ہی بچا سکتے ہیں ہم مل کر ہی بچا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)


وطن عزیز میں کورونا کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں ایسے کیسز کی تعداد 60 فیصد ہو چکی ہے جو مقامی طور پر ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہو رہے ہیں جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے ایسے وقت میں حکومت کیا کر رہی ہے ؟ وفاق کی پالیسی کیا ہے اور صوبے کیا چاہتے ہیں؟ یہ تمام سوال انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور یہ بھی کہ کس کی کیا ذمہ داری ہے  کون اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہے اور کون غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے  یقینا" یہ تمام غور طلب پہلو ہیں مگر کچھ دنوں کے لیے ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے اور ہم کہاں تک اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں اور کہاں تک کر سکتے ہیں کیا بہتر نہیں ہوگا  کہ آج ہر شخص اس بات پر غور کرے  کہ اس وباء کو کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اس کی ذمہ داری کیا ہے اور اب تک اس نے کیا کردار ادا کیا اور وہ کس طرح خود کو اپنے گھر والوں کو اپنے محلے اور شہر کے لوگوں کو اس وباء سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔


جب سے پاکستان تحریک انصاف مرکز اور پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں برسر اقتدار آئی ہیں دونوں جماعتیں اکثر و بیشتر کسی نہ کسی معاملے میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی نظر آتی ہیں یہی صورتحال کورونا وائرس کے آغاز سے لیکر لاک ڈاون تک اور اب لاک ڈاون میں نرمی کے معاملے میں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی نظر آئیں یوں تو دونوں جماعتیں مشکل کی اس گھڑی میں ایک ہونے کے بیانات دیتی رہتی ہیں مگر حقیت یہ ہے کہ کبھی دبے لفظوں میں کبھی کھل کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں بالکل ایسی ہی صورتحال  پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان بھی دیکھنے کو مل رہی ہے دونوں جماعتوں کے رہنماء ایک دوسرے پر الزام تراشی اور تنقید کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

رہی سہی کسر  شیخ رشید پوری کرتے رہتے ہیں ۔ یوں وطن عزیز میں کورونا کیسز میں مسلسل جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے حکومت اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان بھی الزامات جوابی الزامات اور بیان بازی کے سلسلے میں بھی  اسی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے نہیں معلوم سب کچھ سمجھنے کے باوجود یہ لوگ  اس بات کو کیوں نہیں سمجھتے کہ آج تقسیم ہونے کی نہیں جمع ہونے کی ضرورت ہے کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ چند دنوں کے لیے حکومت اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتیں بیان بازی کو چھوڑ دیں الزامات جوابی الزامات کا سلسلہ بند کر دیں کچھ دنوں کے لیے توپوں کا رخ ایک دوسرے کے بجاۓ کورونا کی طرف کر لیں۔


   اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستانی قوم دوہری اذیت کا شکار ہے اسے کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ بھوک افلاس کے وائرس کے ساتھ بھی مقابلہ کرنا ہے گزشتہ تین ہفتوں سے جاری لاک ڈاون کے نتیجے میں عام اور سفید پوش لوگوں کی حالت زار کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو کبھی خود ایسے حالات سے گزرے ہوں جو بھوک کی اذیت سے واقف اور  انسان کی بے بسی  کو قریب سے جانتے ہوں۔

یہ تو اچھا ہوا کہ حکومت نے لاک ڈاون میں کچھ نرمی کرتے ہوئے ہنر مندوں اور ان سے وابستہ کاروبار کرنے والوں کو مشروط طور پر کام کرنے کی اجازت دی ہے جس کے بعد محدود پیمانے پر ہی سہی مگر کچھ حد تک روزگار شروع ہوا ہے دیہاڑی داروں نے کچھ سکھ کا سانس لیا ہے۔ کیونکہ وطن عزیز غربت اور بے روزگاری کے حوالے سے جس طرح کی صورتحال سے دوچار ہے اس میں نہ تو مکمل لاک ڈاون کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی زیادہ عرصہ تک کاروبار زندگی کو معطل رکھا جا سکتا ہے ۔

لاک ڈاون میں کی جانے والی نرمی یقینا" عام اور سفید پوش لوگوں کے لیے کی گئی ہے تاکہ لوگوں کی حالت زار بہتر ہو سکے کیا چند دنوں کے لیے ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم سب لوگ اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کر لیں اس نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روز مرہ معمولات کو کچھ اس طرح سر انجام دیں کہ کاروبار زندگی بھی چلتا رہے اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ نہ ہو لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں اور بازار مارکیٹ جاتے ہوۓ تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔


یاد رکھیں سیاست ہو یا بیان بازی ، الزامات ہوں یا جوابی الزامات ، اقتدار ہو یا اپوزیشن ، روزگار ہو یا کاروبار ، زراعت ہو یا صنعت ، دنیا داری ہو یا دین داری یہ سب کچھ اسی صورت ممکن ہے اگر ہم ہونگے۔ ہم نہیں ہونگے تو سب کچھ ہوگا مگر ہمارے کسی کام کا نہیں ہوگا اس لیے سب کچھ کو بچانے کے لیے خود کو بچانا ہوگا اور خود سے جڑے لوگوں کو بچانا ہوگا کیونکہ ہماری تھوڑی سی غفلت بھی  نہ صرف ہمارے لیے  بلکہ ہم سے جڑے لوگوں ہمارے علاقے شہر اور ملک کے لیے بڑے طوفان کا پیش خیمہ کا ثابت ہو سکتی ہے  لہذا اس طوفان کے آگے بند باندھنے کے کچھ دنوں کے لیے ہی سہی مگر ہمیں ہر قسم کے تعصب ، اختلاف ، سیاست اور مفادات سے بالا تر ہو کر ایک پاکستانی بن کر سوچنا ہے اور "میں میں" کو چھوڑ کر "ہم"ہو کر آگے بڑھنا ہے اور ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :