کورونا اور سیاست کا رونا۔۔۔۔!

پیر 30 نومبر 2020

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

وطن عزیز میں کورونا کی دوسری لہر میں بڑی شدت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ملک میں کورونا کی پہلی لہر سامنے آئی مارچ کے آخر میں جب اس وباء میں اضافہ شروع ہوا تو ایران سے آنے والے زائرین میں سے چند افراد کا تعلق لیه سے بھی تھا جنہیں پہلے ڈیرہ غازیخان میں قائم آئسولیشن سنٹر میں 14 روز کے لیے رکھا گیا وہاں سے کلیئر ہونے کے بعد لیه روانہ کیا گیا مگر لیه پہنچنے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے انہیں گھر بھیجنے کے بجاۓ پہلے لیه میں قائم آئسولیشن سنٹر میں رکھا اور دو ہفتوں بعد مکمل تسلی کر کے انہیں گھروں کو جانے کی اجازت دی بعد ازاں گھر جانے کے بعد لیه کے نواحی چک میں ایک شخص میں کورونا کی علامات سامنے آئیں تو پوری انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں بتانے کا مقصد یہ ہے اس وقت حکومت اور انتظامیہ کورونا جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے کس قدر سنجیدہ تھی کیونکہ اس وقت ریاست ، حکومت اور سیاست سب مل کر عوام کو بچانا چاہتے تھے جس کا نتیجہ بھی بہتر آیا پاکستان بہت جلد بہتر انداز میں کورونا وباء پر قابو پانے میں کامیاب ہوا عالمی سطح پر بھی پاکستان کی کامیابی کو سراہا گیا۔

(جاری ہے)


اب صورتحال یہ ہے لیه میں کورونا کے فعال کیسز کی تعداد 150 سے زائد ہوچکی ہے وسیب میں کورونا میں پھیلاؤ کے حوالے سے ملتان کے بعد لیه دوسرے نمبر پر ہے لیه میں مجموعی طور پر 8 مقامات اور لیه سٹی میں 6 مقامات پر میکرو لاک ڈاون لگایا جا چکا ہے بالکل ایسی ہی صورتحال پورے ملک کے ہر شہر میں ہے ملک میں فعال کیسز کی تعداد 46 ہزار سے زائد ہوچکی ہے روزانہ کی بنیاد پر 25 سو سے تین ہزار کیسز میں اضافہ ہورہا ہے اور اموات کی شرح بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہے مگر آج عوام کو بچانے کے بجاۓ سیاست کو بچانے کی کوشش ہورہی ہے جیسے جیسے کورونا کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی گرما گرمی میں بھی شدت آتی جارہی ہے اس وقت حکومت اور اپوزیشن کا سیاسی اکھاڑہ سرائیکی وسیب بن چکا ہے جس کے اہم شہر ملتان میں اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم نے آج جلسے کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ حکومت یہ جلسہ روکنے پر تلی ہوئی ہے دونوں فریقین کورونائی صورتحال کو اپنی اپنی سیاسی انا کی بھینٹ چھڑانا چاہتے ہیں اس حوالے سے وسیب کے اہم شہروں سے اپوزیشن جماعتوں کے متحرک رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاون کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ملتان میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی قیادت میں قاسم اسٹیڈیم کا گیٹ توڑ کر بنڈال پر قبضہ جما لیا ہے دوسری طرف انتظامیہ نے 30 سے زائد افراد پر مقدمات درج کر کے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔


اس میں کوئی دو راۓ نہیں کہ کسی بھی جمہوری حکومت میں مضبوط اپوزیشن کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے جو کہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف مؤثر آواز بلند کر کے عوام کی حقیقی ترجمانی کرتی ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومت ہو یا اپوزیشن عوام کا نام تو استعمال کرتے ہیں مگر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے  یہی صورتحال کورونا کے حوالے سے ہے دونوں جانب سے کورونا کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے حلانکہ سب ہی اس بات سے آگاہ ہیں کہ کورونا میں آنے والی شدت کی آندھی  نہ جانے کتنے گھروں میں اندھیرا لا سکتی ہے مگر ہمارے سیاستدان اپنی سیاست کا چراغ روشن کرنے کے لیے سب کے چراغ گل کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد انھوں نے ملتان جلسے میں شریک نہ ہونے اور گھر سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے یقینا" اچھی بات ہے جتنی زیادہ احتیاط کی جاۓ گی اتنا ہی اس وبا سے بچا جاسکے گا   مگر جس کورونا سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے بختاور بھٹو کی منگنی میں کورونا ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا گیا اور جس کورونا کی رپورٹ مثبت آنے پر بلاول آئسولیشن میں چلے گئے ہیں کیا وہ کورونا عام کارکنوں اور جلسے میں شریک ہونے والے عوام کو نہیں ہوسکتا کیا کورونا غریب امیر چھوٹے بڑے کی تفریق کرتا ہے کیا وہ حیثیت دیکھتا ہے اگر نہیں تو پھر اپوزیشن جلسوں کی سیاست پر کیوں بضد ہے۔

۔؟ یقیناً یہ وقت سیاست کے رونے کا نہیں بلکہ  کورونے کا ہے اپوزیشن کو مخالفت براۓ مخالفت کی منفی سیاست کو ترک کر کے مثبت طرز سیاست کو اپنانا چاہئے اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کا طرز حکومت اور معاشی پالیسیاں کسی بھی طرح جمہوری اور عوامی نہیں مگر کیا صرف جلسوں کے زریعے ہی حکومت پر دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے پارلیمنٹ موجود ہے اگر اپوزیشن کو عوام کی ترجمانی کرنی ہے تو پارلیمنٹ  موثر کردار ادا کیا جاسکتا ہے اور حکومت کو بھی اپنی  آمرانہ روش پر غور کرنا چاہئے اور اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے  اپوزیشن کو مزاکرات  کی میز پر لانا چاہئے کیونکہ طاقت کا استعمال کبھی بھی سود مند نہیں رہا۔


کورونا کی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوۓ سب کو اپنے اپنے  گریبان میں جھانکنا چاہئے آخر ہم اپنی سیاست بچانے کے لیے غریب عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں جب تک ملک کے کروڑوں عوام کے سروں پر کورونا کا خطرہ منڈلا رہا ہے کم از کم اس وقت تو سیاست سیاست کھیلنا بند کر دیا جانا چاہئے اور در پیش خطرے سے نمٹنے کے لیے کوئی  مشترکہ حکمت عملی اپنا لینی چاہئے کیونکہ تمام تر سیاست عوام سے ہے اگر عوام خطرے سے دوچار ہوۓ تو آپ کی سیاست کیسے بچ پاۓ گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :