امریکا اور مشرق وسطیٰ

جمعرات 25 مارچ 2021

Mehrosh Zahid

مہروش زاہد

امریکہ کے تعلقات مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے وجود کے پہلے سالوں میں باربی جنگوں کے آغاز سے شروع ہوے. لیکن جنگ عظیم دوم کے بعد یہ تعلقات مزید وسیع ہوگئے. اصل میں امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے قدم جب مظبوط کئے جب یہ وہاں کے لوگوں کے نزدیک قابل عزت ہوگئے اور یہ عزت کی وجہ کچھ یوں بنی کے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جس کی حدود مشرق وسطیٰ تک تھی، مشرق وسطیٰ کے لوگ برطانوی سامراج اور فرانسیسیوں کو فریبی اور دھوکے باز سمجھتے تھے.

(جاری ہے)

یہی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکیوں نے مشرق وسطیٰ میں تعاون کا آغاز کیا اور وہاں کے لوگوں کے درد کا مداوا انھوں نے وہاں پر ہسپتال اور تعلیمی سرگرمیوں کے قیام سے کیا اور یہاں ہی نہیں بلکہ اپنے قابل انجینئر بھی مشرق وسطیٰ میں روانہ کئے. بس یہی وجہ تھی کہ امریکی لوگ ان کی نگاہ میں قابل عزت ہوگئے. پر اصل میں تو امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں تیل اور یہودیوں کا مشرق وسطیٰ میں کنٹرول نظر آرہا تھا.

یہی دو مقاصد کے ساتھ امریکہ مشرق وسطیٰ میں دلچسپی لینے لگا. اور پھر امریکہ نے اس دلچسپی کا ثبوت 1928ء میں دستخط شدہ ریڈ لائن معاہدہ سے دیا اور اس دلچسپی میں کمال 1944ء میں اینگرو امریکن پڑولیم معاہدہ پر دستخط ہیں. یہ دونوں معاہدے قانونی طور پر مشرق وسطیٰ کے توانائی وسائل پر قابو پانے میں امریکی دلچسپی کی عکاسی کرتے ہیں. یہ دونوں معاہدے اصل میں برطانیہ کو مشرق وسطیٰ کے تیل سے دور کرنے کے لئے بھی کیے گئے.

اس موقع پر ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں وہ یہ کہ اس موقع پر امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے 1944ء میں برطانوی سفیر کے زہن میں یہ بات واگزار  کروادی   تھی کہ
  "فارسی ائل... تمھارا ہے، ہم عراق اور کویت کا تیل بانٹتے  ہیں . جہاں تک بات ہے سعودی عرب تیل کی تو وہ ہمارا ہیں." اس معاہدے کے بعد سے امریکہ بہادر کو اپنے ایک مقصد میں کامیابی مل رہی تھی.

جس کے بارے میں سیاسی اسکالر ارائن
اینڈ رسن نے  ١٩ویں صدی کے آخر میں اور ٢٠ صدی کے اوائل میں یہ مفادات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کے" اس دور کا اہم واقعہ یہ ہے کہ امریکہ برآمد کنندہ سے درآمد کنندہ کے عہدے میں منتقل ہو رہا تھا" اور حالیہ دنوں میں امریکی صدر کا یہ کہنا کے اب امریکہ کو مشرق وسطیٰ کے تیل کی ضرورت نہیں، بالکل درست اور حقیقت پر مبنی ہے.

اور اب تو امریکہ تیل کے ذخائر میں دنیا میں نمایاں مقام حاصل کر گیا ہے. پر ابھی امریکہ کا دوسرا ہدف نا مکمل ہے اور بلکہ مشکل کا بھی شکار ہے. لیکن امریکہ کی کوشش ہے کے اسرائیل جو کے( ناجائز ریاست) ہے یہودیوں کی، اس کے تعلقات خطے کے ممالک بالخصوص سعودی عرب اور دوسرے گلف ممالک سے بہتر ہو جائیں. تاکہ اس خطے میں کچھ بھرم رہ جائے. کیونکہ امریکہ کی خواہش تو یہ ہے کے ابتدائی طور پر اس کو اس ہدف میں کچھ پیشرفت حاصل ہو جائے پر یہ سب اتنی جلدی ہوتا نظر نہیں آرہا.

اور ایران، عراق، اور دوسرے ایسے ممالک جس میں ایران نے اپنی پیش قدمی کی ہوئی ہے، امریکہ بہادر کے لئے یہ سب تشویش ناک بات ہے. کیونکہ حالیہ واقعہ جس میں امریکہ نے ایران کے القدس فورس کے جنرل کو بغداد میں شہید کیا تھا. اس واقعہ کے نتیجے میں عراق نے اپنی پارلیمنٹ کے زریعے یہ بل پاس کیا کے اب امریکہ بہادر کو جس نے عراق میں اپنا سب سے بڑا سفارت خانہ قائم کیا ہوا ہے، اس بہادر کو اب عراق سے باعزت واپس روانہ ہوجانا چاہیے، اس بات سے امریکہ بہادر کو غصہ بھی بہت آیا ہے اور اس نے اپنے لگائے ہوئے پیسے بھی گنوائے ہیں جو کہ امریکہ عراق میں اپنی فوج پر لگا چکا ہے.

پر شائد اب بات امریکہ کے ہاتھ سے دور نکل گئی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب عراق اور ایران امریکہ کے لئے اس خطے میں مشکلات کا اضافہ کرسکتے ہیں. لحاظہ ایسا لگتا ہے کہ موقع جان کر امریکہ اپنی فوج عراق سے نکال کر قطر منتقل کردے گا. اور اب وہی اس کی آماجگاہ ہوگی. لیکن کیا ہی اچھی بات ہو اگر مشرق وسطیٰ میں موجود تمام مسلم ممالک شیعہ سنی اختلاف بھلا کر یکجہت ہو جائیں اور یہ  سب امریکہ بہادر کو نو مور کہہ دیں. تو لحاظہ مشرق وسطیٰ میں موجود تمام ممالک کی سلامتی بھی اسی میں ہے کے سب کے سب اتحاد کرلیں. کیونکہ بقول راحت اندوری؛
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر ہزاروں زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :