سیاسی سائنسدان

اتوار 22 نومبر 2020

Mian Habib

میاں حبیب

موجودہ حکومت کے قیام کے وقت سے ہی پاکستان میں سیاسی ڈیڈ لاک چل رہا ہے تحریک انصاف کی حکومت روز اول سے اپوزیشن کو منہ نہیں لگا رہی وجہ اس کی یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اپنی ساری انتخابی مہم میں اپوزیشن کی جماعتوں کو ٹارگٹ کیے رکھا اور سب کے بارےمیں یہ موقف اختیار کیا کہ یہ سب چور ہیں اور ہم اقتدار میں آکر ان سے لوٹی ہوئی دولت وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروائیں گے تحریک انصاف کی حکومت آج تک اس پر پہرہ دے رہی ہے لیکن ابھی تک لوٹی ہوئی دولت واپس لینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ماضی میں حکومت اگر اپنی کسی مخالف سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کرتی تھی تو باقی سارے سیاسی گروپوں کو اپنے ساتھ ملا لیتی تھی تاکہ حکومت کے خلاف کم سے کم آوازیں اٹھیں لیکن اس بار تو عمران خان نے الٹ کام کیا حکومت اکیلی ہے اور آوازیں اٹھانے والے سارے سیاستدان  اکھٹے ہیں اوپر سے حکومت میں شامل اتحادی بھی حکومت سے کوئی زیادہ خوش نہیں ایسی صورتحال میں سیاسی پنڈت یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر عمران خان کیا چاہتا ہے وہ کسی کو بھی کھاتے میں لکھنے کے لیے تیار نہیں پہلے سے جاری سیاسی ڈیڈ لاک ذیادہ سنگین ہو چکا کیونکہ اپوزیشن کا اتحاد پی ڈی ایم سیاسی جلسے جلوسوں سے آگے کی سوچ رہا ہے لیکن حکومت میں لچک پیدا نہیں ہو رہی درمیان میں کرونا کا کشن آگیا ہے وہ خلل پیدا کر سکتا ہے پی ڈی ایم کی کوشش ہے کہ وہ کرونا سے پیدا صورتحال کو بھی حکومتی نااہلی میں شامل کر کے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ اگر دباو کا تسلسل ٹوٹا تو اس کو دوبارہ اس نہج پر لانا بہت مشکل ہو گا اب حکومت کرونا کی آڑ میں جلسے روکنے اور اپوزیشن ہر صورت کرنے کی ضد پر قائم ہے بہر حال پشاور کا جلسہ طے کر دے گا کہ احتجاج کو روکنے میں حکومت کامیاب ہوتی ہے یا اپوزیشن دباو کو قائم رکھنے کے لیے آپنے احتجاج کو جاری رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے بہر حال یہ ساری عارضی باتیں ہیں اصلمعاملہ یہ ہے کہ اس وقت قومی ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے حکومت بھی اس ضرورت کو سمجھتی ہے اور اپوزیشن کو بھی علم ہے کہ جس طرح وہ چاہ رہے ہیں اس طرح ان کی دال گلنا ممکن نہیں اس لیے وہ بھی چاہتے ہیں کہ کوئی درمیانی راستہ نکلے لیکن اصل مسلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے کبھی اداروں کی طرف دیکھا جاتا ہے کبھی عدالت کی طرف دیکھا جاتا ہے لیکن سیاستدان اپنی طرف نہیں دیکھ رہے اگر سیاستدان  آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو پھر انھیں ادھر اودھر نہیں دیکھنا چاہیے اور خود راستہ نکالنا چاہیے ایسی صورتحال میں نوابزادہ نصراللہ خان بہت یاد آتے ہیں وہ سیاسی مسائل کا حل نکالنے کے ماہر تھے ان کی رحلت کے بعد اب بھی پاکستان کے پاس ایک سیاسی سائنسدان موجود ہے جس پر سب کو اتفاق بھی ہو سکتا ہے جو حالات کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور وہ ڈنڈی مارے بغیر سب کو مطمئین کرسکتے ہیں وہ ہیں چوہدری شجاعت حسین لیکن وہ آج کل علیل ہیں حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ انھیں منصف مان کر ڈائیلاگ کا آغاز کریں چوہدری شجاعت حسین دونوں فریقین کو مطمئین کرسکتے ہیں وہ زمینی حقائق سے آگاہ ہیں سب کے معاملات کو بھی جانتے ہیں ان کی سربراہی میں شروع ہونے والے ڈائیلاگ مسائل کے حل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں ورنہ محاذآرائی نہ صرف سیاسی جماعتوں کو نقصان ہو گا بلکہ ملک وقوم کو بھی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :