حضرت امام علی الحق سیّد، ولی اللہ اور شہید

پیر 10 ستمبر 2018

Mian Muhammad Ashfaq

میاں محمد اشفاق

برصغیر پاک و ہند میں کفر و شرک کے خاتمے اور دین اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں اولیاء کرام اور بزرگانِ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ ان بزرگان دین نے نا صرف اسلام کی تبلیغ کی بلکہ ضرورت پڑنے پر اسلام کی آبیاری کیلئے اپنی جانوں کی قربانی بھی پیش کردی۔ حضرت امام علی الحق  المعروف حضرت امام صاحب کا شمار بھی اللہ رب العزت کی انہی برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے ۔

آپ کا شجرہ نسب داماد رسول ﷺشیر خدا حضرت علی  کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔ آپ757ھ کے دوران دین اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے سلسلہ میں ہندوستان تشریف لائے ہوئے اور دہلی میں” فیروز شاہ تغلق “کے ہاں شاہی مہمان کے طور پر ٹھہر ئے ہوئے تھے ۔ غزنوی عہد حکومت سے لیکر خاندان تغلق کے ابتدائی ایام تک ہندوستان میں اسلامی حکومت کے ساڑھے تین سو سال بنتے ہیں اس طویل عرصہ میں پشاور ، خوشاب ، بھیرہ ، جہلم ، سیالکوٹ ، لاہور ، ملتان ، دہلی ، اجمیر اور اس سے ملحقہ تمام علاقوں میں اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا تھا ۔

(جاری ہے)

اسلام کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ اولیاء اللہ کی تبلیغ اور مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک تھا ۔ دہلی میں ”فیروز شاہ تغلق “کی حکومت تھی اور ”سل کوٹ“ (جسے آج سیالکوٹ کے نام سے جانا جاتا ہے) یہاں مہاراجہ ”سہن پال“ حکومت کر رہا تھا ۔یوں تو مہاراجہ سہن پال فیروز شاہ تغلق کا بیاج گزار تھا ،مگروہ ہر لمحہ بغاوت کے لئے کوشاں تھا ۔

چھوٹی ریاست ہونے کی وجہ سے مہاراجہ جرت کرنے سے قاصر تھا لیکن جب دار السطنت دہلی میں کچھ ابتری اور بد نظمی کا ظہور ہوا تو راجہ سہن پال نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بغاوت کی سوچی اوراعلانِ بغاوت کے لیے کسی مبارک لمحہ کی تلاش کیلئے پنڈتوں ،جوتشیوں اور جادوگروں کو اپنے پا س بلایا اور اُنہیں ایسا عمل کرنے کو کہا جس سے قلعہ ناقابل تسخیر ہو جائے۔

پنڈتوں اور جوتشیوں نے راجہ کو مشورہ دیا کہ قلعے کی دیواروں پر کسی مسلمان کے خون کے قطروں کو چھڑک دیا جائے تو کوئی بھی دشمن قلعہ پر فتح یاب نہیں ہو سکے گا ۔چنانچہ راجہ سہن پال نے پنڈتوں کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے ایک مسلمان کو شہید کرکے اس کا خون قلعہ کے دیواروں پر چھڑک دیا ۔ (کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان کا خون قلعہ کی بنیاد کھڑی کرنے کیلئے استعما ل کیا گیا جو کہ مبالغہ آرائی ہے کیونکہ سیالکوٹ کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے جبکہ اسلام کا ظہور تقریباً چودہ سو سال قبل ہو ا ۔

)اس لیئے تاریخی اعتبار سے یہ دعویٰ درست معلوم نہیں ہوتالوگوں کی رائے اپنی جگہ مقدم مگر ایسی تمام کہانیاں اندھی عقیدت کے سواء کچھ بھی نہیں ہیں ۔
 مہاراجہ سہن پال کی جانب سے شہید کئے جانے والے نوجوان کا نام تو تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں ملتا البتہ آج مخلوق خدا انہیں”پیر مرادیہ“ کے نام سے جانتی ہے ۔ نوجوان کی شہادت کے بعد شہید کی والدہ اپنی داستان غم لیکر دہلی میں فیروز شاہ تغلق کے دربار میں حاضر ہوئیں اور سل کوٹ کے حالات اور اپنے بیٹے کی شہادت بارے آگاہ کیا ۔

شہید کی والدہ کی داستان سن کر فیروز شاہ بہت رنجیدہ ہوا مگر اس وقت دہلی کے حالات کچھ ایسے تھے کہ مہاراجہ سہن پال کیخلاف فوج کشی ممکن نہ تھی مگر کسی کو مسلمان کے قتل عام کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی تھی ۔فیروز شاہ نے اپنے شاہی مہمان امام علی الحق سے درخواست کی کہ وہ غموں کی ماری ممتا کی داد رسی کریں اور مسلمان کے ناحق خون کا بدلہ لینے کیلئے سل کوٹ کی طرف پیش قدمی کریں ۔

امام علی حق نے فیروز شاہ تغلق کی درخواست کو بخوشی قبول کیا اور مختصر سا لشکر ترتیب دیکر سل کوٹ کی جانب پیش قدمی شروع کر دی ۔ راستے میں جالندھر کے مقام پر امام علی الحق کے بھائی امام ناصر  انتقال کر گئے ۔ اپنے بھائی کو وہیں سپرد خاک کرنے کے بعد امام علی الحق نے دوبارہ سفر شروع کر دیا ۔ لشکر اسلام امرتسر کے راستے سل کوٹ کی حدود میں داخل ہوا۔

وہاں پسرور کے مقام پر کفار کے ساتھ آپ کا ٹکراؤ ہوا ۔ اس معرکہ میں آپ کے چھوٹے بھائی حضرت امام میراں برخورداربھی بے شمار کفار کو واصل جہنم کرنے کے بعد جام شہادت نوش فرما گئے ۔امام میراں  کی شہادت کے باوجود امام علی الحق نے اپنی منزل کی جانب بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اگلا معرکہ موجودہ ایمن آبا د روڈ ( آدم دراز ) میں ہوا ۔یہ معرکہ بھی انتہائی خون ریز تھا اس معرکہ میں بھی حضرت امام علی الحق  کے ایک اور بھائی حضرت امام غالب  نے بے مثال جرات اور جواں مردی کے جوہردکھانے کے بعد راہ خدوا وندی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ۔

شہادتوں کی داستاں رقم کرنے کے بعد لشکر اسلام شہر میں داخل ہو اجبکہ مہاراجہ سہن پال کی فوج قلعہ میں محصور ہو کر رہ گئی ۔ لشکر اسلام نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا جو کافی دن تک جاری رہا ۔ ایک دن امام علی الحق  نے لشکر میں شامل اپنے بھانجے سیّدسعید سُرخ کو بلا کر فرمایا کہ نماز مغرب قلعہ کے اندر ادا کی جائے گی لہٰذا ہر حال میں قلعہ کے اندر داخل ہونے کی تیاری کی جائے ۔

سید سعید سرخ نے اپنے لشکر کے ہمراہ قلعہ کے دیو ہیکل دروازے کو توڑ دیا اور لشکر اسلام اللہ اکبر کے نعروں کی گونج کے ساتھ قلعہ کے اندر داخل ہو گیا ۔فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑھ دیئے گئے ۔
راجہ سہن پال کو عبرتناک شکست کا سامنا کر نا پڑا اور یوں اس کفرستان کے درو دیوار ”لا الہ الا اللہ“ کی فلک شگاف صداؤں سے گونج اٹھے ۔ امام علی الحق  نے اپنے عمل کے ساتھ پورے عالم کفر کو یہ پیغام دیا کہ مسلمان جسدِ واحدکی طرح ہیں اگردنیا کے کسی ایک کونے میں مسلمان کوقتل کیا جائے تو دوسرے کونے سے مسلمان اس کا بدلہ لینے کیلئے آجاتے ہیں ۔

سل کوٹ میں اسلامی حکمرانی کے بعد امام علی الحق نے ایک اونچے ٹیلے پر اپنا ڈیرہ جما کر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر لیا آپ کی دعوت و تبلیغ کے نتیجہ میں لاتعداد غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ دور دور تک اسلامی تعلیمات پھیلتی گئیں کفر کے اندھیرے ختم اور اسلام کی شمع روشن ہوئی ۔ دوسری طرف ہندو راجہ سہن پال کے خواریوں ، عزیز و اقارب اور پنڈتوں کو اپنی شکست کا بے حد صدمہ تھا اور وہ ہر وقت امام علی الحق سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے ان کی کھوج میں رہتے تھے۔

حضرت سیدنا امام علی الحق اسی ٹیلے پر رات کو عبادت خدا وندی بھی کیا کرتے تھے چنانچہ ایک روز راجہ سہن پال کے سالے بہمن نے حضرت امام عل الحق کو اکیلا پاکر دورانِ نمازحالتِ سجدہ میں شہید کر دیا ! بعد میں مسلمانوں نے آپ کی مقام شہادت پر ہی آپ کا مزار اقدس تعمیر کر دیا ۔حضرت امام علی الحق  کا مزار پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سرحدی شہر سیالکوٹ ہے جو آج بھی ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنا ہواہے آج تک لاکھوں لوگ تعلیمات امام علی الحق سے فیض یاب ہو کرمخلق خداوندی کو فیض یاب کر رہے ہیں حضرت امام الحق کا عرس محرم الحرام کے ماہ میں ہوتا ہے جس میں درودو سلام کی محافلوں کے ساتھ درس و تدریس اور قرآن پاک کی تلاوت کے مقابلوں کا بھی انقاد کیا جاتا ہے ۔

تین دن تک جاری رہنے والے اس عرس میں شرکت کے لئے ملک کے طول و عرض سے زائرین آتے ہیں ۔ حضرت سیدنا امام علی الحق کے مزار کے احاطے میں آپ کے لشکر کے بے شمار شہدا کرام کے مزارات بھی موجود ہیں ۔ جنہوں نے رضائے خدو وندی کی خاطر جام شہادت نوش فرمایا ۔ان شہدا ء میں آپ  کے اساتذہ کرام حضرت حافظ ابی محمد ، حضرت حافظ بدرالدین کے مزارات بھی شامل ہیں ۔

سر زمین سیالکوٹ میں حضرت امام علی الحق  کے دیگر ساتھیوں کے مزارات بھی موجودہیں ان میں حضرت پیر خزانچی  ، حضرت شاہ مقصود  ، شعلہ شہید  ، حضرت سیدسعید سرخ ،حضرت شاہ ابدالی  اور حضرت بہلوی  کے مزارات قابل ذکر ہیں ۔ جہاں صبح شام بندگان خدا حاضر ہو کر اپنی عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کرتے ہیں ۔حضرت امام علی الحق سیّد، ولی اللہ اور شہید کے درجہ پر فائز ہیں ۔اللہ ان تمام اولیا اللہ کے درجات کو بلند فرمائے اور اُمت مسلمہ کو صیح معنوں میں ان کی تعلمات پر عمل کی توفیق دے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :