بے اختیا ر چھلکتے آنسو۔ قسط نمبر1

جمعرات 13 ستمبر 2018

Mian Muhammad Ashfaq

میاں محمد اشفاق

زمانہ قدیم میں پیغام رسائی اور امانتوں کی منتقلی کے لیے انفرادی طورپر نیک اور امانت دار لوگوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ہمارے اس خطے میں”شیرشاہ سوری “نے باقائدہ حکومتی سطح پر پیغام رسائی کے لیے محکمہ تر تیب دیا،جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدت اختیار کرتا گیا اور آج نہ صرف سرکاری سطح پر بلکہ بہت سی پرائیویٹ کمپنیاں بھی خطوط کی تقسیم سے لے کررقوم کی منتقلی تک احسن طریقہ سے کر رہی ہیں ۔

بیرون ملک موجود پاکستانیوں کے لیے تو یہ کمپنیاں کسی نعمت سے کم نہیں!دُنیا کے کسی بھی ملک میں موجود پاکستانی وہاں رقم جمع کرواتے ہیں اور پاکستان میں موجود اُن کے عزیز واقارب کمپنی کے دفتر سے باآسانی رقم وصول کر لیتے ہیں۔البتہ پاکستان کے دور دراز کے علاقوں کے لوگ آج بھی اس سہولت سے کسی حد تک محروم ہیں انہیں رقم کے حصول کے لیے لمبی مسافت کے بعد شہر کی طرف آنا پڑتا ہے یابیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کسی قابل اعتماد دوست کے ذریعے رقم اپنے گھروں تک پہچانی پڑتی ہے ۔

(جاری ہے)

ایسی ہی ایک خدمت ادا کرنے کا موقع مجھے بھی ملا۔اس خدمت کی بجاآوری سے پہلے مجھے اپنے دہی علاقوں کے متعلق خوش گمانی تھی کہ ہمارے گاؤں آج بھی خاندانی محبت کا سر چشمہ ہیں ،جہاں نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ پیار موجود ہے بلکہ بڑوں کی عزت اورچھوٹوں سے شفقت بھی کی جاتی ہے۔ یہاںآ ج بھی تمام فیصلے گھر کے بڑے ہی کرتے ہیں !لیکن اس خدمت گزاری کے بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ خود غرضی ،لالچ اور بے حسی نے ہمارے دہی علاقوں کی راہ بھی دیکھ لی ہے ۔

کچھ دن قبل بیرون ملک مقیم میرے بھائی نے کچھ رقم میرے اکاؤنٹ منتقل کروا ئی اور بتایا کہ یہ رقم اس کے دوست کی ہے آپ ناروال کے نواحی گاؤں میں اُس کے دوست کے گھر پہنچا دیں۔میں نے استفسار کیا کہ یہ رقم آپ کا دوست خود اپنے گھر کے کسی فرد کے اکاؤنٹ میں کیوں نہیں منتقل کروا دیتا؟ جواب ملا کہ اُس گاؤں میں بینک نہیں ہے اور نہ گھر میں کوئی جوان مرد ہی موجود ہے جو شہر آ کر رقم لے سکے۔

گھر میں دوست کی بیوی اور تین چھوٹے بچے ہیں ،اس لیے آپ یہ رقم اُن کے گھر پہنچا دیں۔مصروف زمانے میں کسی کے لیے وقت نکالنا اور اُس کے کام آنا خوش قسمت لوگوں کا کام ہے ،میں دل میں یہی احساس لیے ناروال کی جانب روانہ ہوا۔ مجھے جو اڈریس ملا تھا وہ فرضی ناموں کے ساتھ آپ کی نظر کر رہا ہوں۔
”ریحانہ زوجہ اکرم ولد کرم دین گاؤں۔ ۔۔۔۔۔“ ( اصل نام اور اڈریس ظاہر نہ کرنے کا مقصدکسی کی عزت کو برقرار رکھنا ہے) مجھے ضلع ناروال کی تحصیل شکر گڑھ کے ایک دور دراز گاؤں پہنچنا تھا سیالکوٹ سے شکرگڑھ پہنچنے کے لئے دو بڑے سیاستدانوں کے حلقوں سے گزرناپڑتا ہے لیکن جب آپ وہاں پہنچیں گے تو احساس ہوگا کہ نام بڑے اور درشن چھوٹے ہیں۔

پہلے تو واسطہ سابق وزیر قانون”زاہد حامد “ کے حلقے کی سڑک پسرور روڈ سے پڑا جہاں سٹرک کم کھڈے زیادہ نظر آتے تھے ۔جس کے باعث 30کلومیٹر کا فاصلہ ڈھیڑگھنٹے میں طے ہوا۔اس حلقے کے عوامی نمائندے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما”زاہد حامد “ یہاں کی عوام سے کس قدر پیار کرتے ہیں اس کا اندازہ سٹرکوں کی حالت زار سے ہی ہو رہا تھا۔ٹوٹی پھوٹی سٹرکیں اور گندگی اُگلتے گٹر ”زاہد حامد “کی صلاحیتوں کی داستان سُنا رہے تھے۔

ناروال سے تحصیل شکرگڑھ کا سفر تو بہت زیادہ نہیں ،مگر سڑک نہ ہونیکی وجہ سے ضرورت سے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے ۔جب میں نے ظفروال سے شکرگڑھ کی سڑک دیکھی تو خیال آیا کہ شاید ہی جناب دانیال نے اپنے حلقے آنے کی زحمت گوارا کی ہوگی۔اس سفر سے یہ محسوس ہوا کہ مسلم لیگ نواز کے ترقی کے دعوے صرف لاہور تک ہی محدود ہیں۔اللہ کرئے تحریک انصاف کی حکومت ان علاقوں کے لیئے کم سے کم سڑکیں ہی تعمیر کروا دے۔

سابق حکومت کی کارکردگی پر بات پھر کبھی کریں گے واپس آج کے موضع کی طرف آتا ہوں۔ جب میں متعلقہ گاؤں پہنچاتو مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ گاؤں جانے والی سٹرک کچی تھی اورحالیہ بارشوں کی وجہ سے گاڑی سے سفر کرنا مشکل تھا۔میں نے وہاں سے گزرتے ایک بزرگ سے متبادل راستہ پوچھا تو اُنہوں نے انتہائی محبت سے کہا کہ بیٹا گاؤں کو تو صرف ایک ہی سٹرک جاتی ہے تم گاڑی اسی جگہ کھڑی کر کے پیدل میرے ساتھ چلے چلو میں بھی اُسی گاؤں کا رہنے والا ہوں۔

میں نے استفسار کیا بابا جی گاؤں کتنی دور ہے ۔؟ بزرگ نے کہا بیٹا آدھا میل ہوگا۔اتنا سفر کرنے کے بعد آدھے میل پیدل سفرسے بچنے کی غرض سے واپس لوٹ آنا ہرگز مناسب نہ تھا۔میں نے بزرگ کے ساتھ پید ل چلنے کا فیصلہ کر لیا ۔کچی سڑک پر بارش کے پانی کی وجہ سے راستہ تقریباًختم ہو چکا تھاچلنے کے لیے صرف ایک پگڈ نڈی تھی جس پر میں بزرگ کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔

بزرگ نے مجھ سے پوچھ بیٹا گاؤں میں تم کسی کے گھر جانا چاہتے ہو؟میں نے عرض کی اکرم ولد کرم دین کے گھر جانا ہے بزرگ نے کہا اکرم وہ جو بیرون ملک ہوتا ہے ؟ میں نے جی کہتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔میرے پاس چونکے کسی کی رقم بطور امانت تھی اور میں نہیں چاہتا تھاکہ گاؤں میں کسی کو اس بات کا علم ہو ،اس لیے میں نے بزرگ سے ادھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں ۔

وہ جب بھی کوئی بات اکرم کے متعلق کرنا چاہتے میں احتیاط سے کام لیتا۔اُسکی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کے میں اکرم کے بارے میں کچھ نہیں جانتاتھادوسری وجہ یہ کہ خوامخوہ اکرم کی رقم بارے اُس کے گاؤں کے کسی فردکو نہیں بتانا چاہتا تھا۔
بل آخر گاؤں قریب آ ہی گیا اکرم کے گھر تک پہنچ کربزرگ نے داروازے پردستک دی اندرسے پانچ چھ سالہ بچہ باہر آیابزرگ نے اُسے پوچھا کہ ریحانہ کہا ں ہے ؟بچے نے گاؤں کے کسی خاتون کا نام لے کر بتایا کہ وہ وہاں گئی ہے ۔

بزرگ نے کہا جاؤ اُسے بلا کر لاؤتمہارے باپ کے پاس سے یہ مہمان آئے ہیں ۔بچہ اپنے باپ کا نام سن کر اپنی ماں کو بلانے کے غرض سے بھاگ گیا ۔بزرگ نے مجھے کہا کہ تم کچھ دیر میرے گھر چل کر آرام کرو جب اکرم کی بیوی آئے گی تم آجانا ۔میں نے سوچا وقت گزار نے کے لیے اس سے بہتر جگہ اور کہا مل سکتی ہے ۔میں نے بزرگ سے کہا ٹھیک ہے مگر آپ کا گھر کہا ں ہے ؟بزرگ نے اکرم کے ساتھ والے گھر کی طرف اشارہ کیا اور گھر میں داخل ہونے کاکہہ کر اند ر چلے گئے۔

میں بے پردگی کے ڈر سے باہر ہی روکارہا تو اندار سے بزرگ نے میری ہچکچاہٹ کو بھانپتے ہوئے کہا اندار آ جاؤ بیٹاگھر میں کوئی نہیں ہے۔داخل ہوتے ہی درودیوار سے گھر کے مکینوں کی غربت کا اندازہ ہو رہا تھا۔صحن میں ایک اندھی اماں جی بیٹھی ایک ہاتھ سے تسبی تھامے اللہ کا ذکر اور دوسرے ہاتھ سے ہاتھ والا پنکھا چلا کر گرمی کی شدت کو کم کر رہی تھی ۔

بزرگ نے مجھے چار پائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اندر سے گلاس لا کر ہاتھ والے پمپ سے مجھے پانی نکال کر دیا۔پانی پلانے کے بعد بزرگ نے کہا بیٹا گھر میں اس وقت کچھ پکا ہوا نہیں ہے ،تم تھوری دیر بیٹھو میں کھانے کا انتظام کر کے آتا ہوں۔میں نے بزرگ کاشکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں کھانا کھا چکا ہوں ،پانی کی پیاس تھی وہ آپ نے پلا دیا ہے ۔

مگر بزرگ میری کچھ نہ کچھ خدمت کرنے کے لیے بضد تھے ۔ہماری باتوں کی آواز سن کر اماں جی بھی گویا ہوئیں اور استفسار کرنے لگیں کے اکرم کے ابا آپ کس سے بات کر رہے ہیں؟اکرم کا نام سن کر مجھے کچھ حیرانی سی ہوئی اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ سوچ سکوں بزرگ نے جواب دیا کہ اکرم کے پاس سے اُس کا دوست آیا ہے ۔بس اتنا سنُا تھا کہ بوڑھی ممتا خوشی سے کھل اُٹھی آنکھوں سے بے اختیار آنسو چھلک پڑے ۔

پھر کیا تھا بار بار مجھ سے اکرم کے بارے میں سوال جواب کرتی ،اکرم کیسا ہے ؟کیا کرتا ہے؟ کبھی فون کیوں نہیں کرتا؟اُسے کبھی ماں کی یاد بھی آتی ہے یا نہیں؟میرے پاس سوائے جھوٹی طفل تسلیوں کے اور کچھ نہ تھا۔میں جب کہتا کہ وہ آپکو بہت یاد کرتا ہے تو وہ پوچھتی پھر مجھے فون کیوں نہیں کرتا؟پاس بیٹے بزرگ کی آنکھوں سے بھی آنسوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری تھا۔ان دونوں بزرگوں کی حالت دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھامیرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ اکرم اپنے والدین کا گستاخ ہے اوربد بخت آدمی ہے۔میں جذبات میں ڈوبے والدین کی محبت کو دیکھ رہا تھا۔(جاری ہے )

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :