دانشوروں کا حکمرانوں کی مدہاسرائی کرنا قلمی دیوالیہ پن ہے

جمعرات 27 ستمبر 2018

Mian Muhammad Ashfaq

میاں محمد اشفاق

محترمہ کلثوم نواز کےانتقال کے بعددانشوروں اور کالم نویسوں نے سابق خاتون اول کے حق میں مدہاسرائی کا ایسا طوفان اُٹھایا کہ اس اُٹھنے والے طوفان کو لے کر میں بھی کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر خیال آیا کہ کہ کیوں نہ اپنے جذبات اور رائے کو تدفین کے بعد تک کہ لیئے سنمبھال رکھا جائے مگر مصروفیت کے باعث لکھنے کا وقت نہ مل سکا اور اسی دوران سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف رہا ہو گئے اور اُن کی رہائی کے ساتھ ہی عدلیہ کی جے جے کار اور حق و انصاف کی فتح کے نعرے لگنا شروع ہو چکے ہیں ۔

کل تک عدلیہ پر خلائی مخلوق کے دباؤ میں فیصلے کرنے کا الزام لگانے والے اچانک خاموش ہو گئے ہیں ۔بہرحال فیصلے نے عدالتی نظامی پر بہت سے سوالات ضرور کھڑے کر دئیے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف اُن کی بیٹی اور داماد پاک صاف تھے تو سزا کیوں دی گئی اور اگر مجرم ہیں تو رہائی کیوں مل گئی۔

(جاری ہے)

عدلیہ کا ایک فیصلہ تحریک انصاف کو خوش کر دیتا ہے تو دوسرے پر مسلم لیگ نواز کے لوگ میٹھائیاں تقسیم کر رہے ہوتے ہیں بہر حال اللہ کرئے کہ چیف جسٹس صاحب اس بات پر بھی توجہ دیں کہ ابہام شدہ فیصلے دینے کے پیچھے کس کے کیا مفادات ہوتے ہیں ؟؟ اس کیس میں نیب کے کردار پراتنی بات ہو چکی کہ اب مزید بات کرنا تو بے معنی لگتا ہے. مگر سوال تو یہ بھی ہے کہ ہائی کورٹ نے شریف خاندان سےاس انداز میں سوالات کیوں نہیں کیئے جس طرح نیب پراسیکوٹر سے کیئے گئے تھے حالانکہ کیس شریف خاندان کے خلاف تھا نہ کہ نیب کے خلاف تھا۔

کاش اُن سے بھی پوچھ لیا جاتا کہ یہ فلیٹ کس کے ہیں اور اس کی رسیدیں کہاں ہیں۔  کہتے ہیں کہ قانونی پچیدگیوں کا فائدہ ہمیشہ مجرم کو ہوتا ہے شاید اس کیس میں بھی مجرم فائدہ لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں جان کی امان ملے تو عرض یہ کہ مجھے لگتا ہے کہ مجرم کو قانونی پچیدگیوں کا فائدہ دیا بھی گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں دوقانون ہیں ایک غریب کے لیئے دوسرا قانون امیر کے لیئے ہے جس میں جیل میں اے سی سے لیکر وائی فائی کی سہولیات تک دستیاب ہیں ۔

مختصر یہ کہ ایک عدالت اور بھی ہے جہاں سب کے فیصلے کئیے جائیں گے وہاں کوئی قانونی پچیدگی فائدہ نہ دے سکے گی۔ اللہ اس عدالت سے سب کو سرخرو فرمائے۔ آمین۔ اب ملک کے سیاسی حالات کی جانب آتے ہیں ایک مدت تک اس ملک میں سیاست کا محور ذولفقار علی بھٹو رہے تھے۔ عوام کی رائے پُرو بھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم تھی ۔لیکن گزشتہ دہائی اوربلخصوص 2018 کے الیکشن میں عوامی رائے میاں نواز شریف کی محبت اور نفرت کے درمیان تقسیم تھی ۔

بھٹو ازم کم سے کم پنجاب میں تو ختم ہو چکا ہے. اب پُرو نواز اور اینٹی نواز ووٹ ڈلتا ہے۔ شریف خاندان کے ساتھ ہونے والے حالیہ واقعات پر عوامی ردعمل بھی انتہائی شدید تھا۔ پانامہ لیکس سے لے کر پانامہ کیس کے فیصلے تک اور حکومتی کارکردگی سے لے کر ختم نبوتﷺ کے قانون میں ترمیم تک شدید اختلافات سامنے آتے رہے۔ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی تو کچھ نے اسے اعمال کی کالاک سمجھا تو کچھ نے شدت پسندی کی انتہاء قرار دیا۔

یہی رویہ میاں نواز شریف کو جوتا لگنے پر دیکھنے کو ملا۔ محترمہ کلثوم نواز کی بیماری سے لے کر انتقال تک جو کچھ ہوا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں اور اینکرز نے کلثوم نواز کی بیماری کا مذاق اُڑانے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ بعض نے تو فرمایا کہ پاکستانی قوم اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس ملک میں قانون کے متعلق تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ غریب کے لیئے الگ اور امیر کے لیئے الگ ہیں لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ اخلاقیات کی بھی الگ الگ تشریح ہونے جا رہی ہیں۔

میری تحریر کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ خدانخواستہ میں کلثوم نواز کی بیماری کا مذاق اُڑانے والوں کا حمایتی ہوں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ کسی کے جھوٹ کا معاملہ اللہ کے سپرد کریں اور اللہ سے پناہ مانگیں کہ اللہ ہمیں ایسے حالات سے محفوظ رکھے جس میں جھوٹ بول کر بھی ہمیں خود یا اپنے کسی عزیز کو بھی بیمار ظاہر کرنا پڑے۔ کلثوم نواز کی بیماری پر تمسخڑ اڑانے والوں کو برا بھلا کہنے اور اخلاقی دیوالیہ پن ثابت کرنے کے لیئے ٹی وی شوز بھی ہوئے اور تحریریں بھی لکھی گئیں۔

جو کسی حد تک درست ہیں ہمیں کسی صورت ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے جو دوسروں کی تکلیف پر شادیانے بجاتے ہیں مگر گزارش یہ ہے کہ ہمیں اُن حالات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس میں اجتماعی رائے اخلاقی دیوالیہ پن کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ ان تمام تجزیہ نگاروں سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ قوموں کی تربیت قوم کے لیڈر کرتے ہیں جبکہ ذہن سازی میں کالم نگار ،مفکر، ادیب اور دانشور اپنا کردار ادا کرتے ہیں مگر افسوس قلم کے وارثوں کی ایک جماعت تو گھر کے باہر برائے فروخت کا بورڈ لگا چکے ہیں رہی بات سیاستدانوں کی تو وہ بھی ایک ہی وقت میں صحت مند تو اُسی وقت بیمار ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

عدالت میں لوٹی رقم کا حساب دینے کی بات آئے تو ذہنی توازن خراب کا سرٹیفکیٹ حاضر ہے۔ کرپشن ثابت ہونے پر جیل جائیں تو دل کے عارضہ میں مبتلا ہو کر سیدھے وی آئی پی ہسپتال پہنچ جاتے ہیں وہاں دل نہ لگے تو سب جیل یعنی بڑے ہسپتال تشریف لے جاتے ہیں جہاں شراب اور شباب کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے۔ ان حالات میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس بھی دوران چھاپہ شراب پکڑلیں تو اُسے بھی شہد ثابت کرنے کے لیئے لیبارٹری موجود ہوتی ہیں۔

کیا یہ سب کچھ عام عوام نے کیا تھا یا یہ کارنامے خواص نے سرانجام دیئے ہیں ؟ کبھی ان بد اعمالیوں پر تو نہیں فرمایا گیا کہ قوم کے لیڈر اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ کچھ روز پہلے تک ہشاش بشاش رہنے والے نواز شریف جیل جاتے ہی بیمار پڑگئے، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کرپشن کیس چلنے پر لندن گئے وہ وہاں جاکر بیمار ہوگئے اور پھر بیماری کا بہانہ بنا کر تاحال مقدمات سے مفرور ہیں۔

نواز شریف کے مقدمات پر گرجنے برسنے والے ہٹے کٹے نہال ہاشمی توہین عدالت کیس میں جیل گئے تو وہ بھی بیمار پڑگئے ان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن بھی کرپشن کیس بھگت رہے ہیں انھیں جیل بھجوا گیا تو وہ بھی بیماری کا جواز بنا کر اسپتال جا پہنچے۔ اُن کی بیماری کا بھانڈہ اس وقت پھوٹا جب چیف جسٹس نے ہسپتال میں انہیں بلیک لیبل شہد سمیت رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔

پیپلز پارٹی کے ہی رہنما ڈاکٹر عاصم نے بھی اسیری کا بڑا حصہ جیل کے بجائے اسپتال میں کاٹا اور وہیں سے ہی ان کی رہائی عمل میں آئی۔ آصف زرداری بھی طویل عرصےقید رہے ان کی اسیری کے بیشتر دن بھی جیل کے بجائے اسپتالوں میں گزرے۔ کیا اس ملک میں جنرل مشرف سمیت سیاستدان موجود نہیں ہیں جنہوں نے بیماری کا جھوٹا بہانہ بنا کر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے۔

جبکہ اس جھوٹ کو عدلیہ میڈیا اور کالم نویس سبھی جانتے ہیں۔ مگر کسی نے اخلاقی دیوالیہ پن کی بات کیوں نہ کی؟ ایک ایسا شخص جس نے عدالت میں اپنا ذہنی توازن درست نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا تھا وقت آنے پر ملک کے اعلی ترین عہدے پر فائز ہو گیا مگر کسی نے نہیں پوچھا کہ جناب آپ کا تو ذہنی توازن ہی ٹھیک نہ تھا۔ بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادوں کی ملکیت سے انکار کرنے والےجب بعد میں اسی جائیداد پر حق ملکیت تسلیم کرتے نظر آتے ہیں تو اخلاقی دیوالیہ پن کیوں نظر نہیں آتا ؟ گزارش یہ کہ اس ملک کی سیاسی قیادت نے جس طرح اپنے عوام کے جذبات کو استعمال کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ہمدردی کا ووٹ لینے کے لیئے کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں وہ بھی سبھی جانتے ہیں۔

کیا پیپلز پارٹی کی بد ترین کارکردگی کے باوجود کامیابی کی وجہ مظلومیت اور ہمدردی کے ووٹ کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟ یقینا نہیں کیونکہ سندھ کے حالات تو بد سے بد تر ہوتے گئے مگر پیپلز پارٹی ہمیشہ الیکشن جیتی آئی ہے۔ ایسے حالات میں کلثوم نواز کی بیماری کے بارے شکوک و شبہات کا اظہار صرف اخلاقی دولیہ پن کا مظہر ہے یا بد کردار سیاستدانوں پر بد اعتمادی بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے؟ جب سیاستدان ذاتی مفادات کے لیئے ایک دوسرے کے لیئے گھٹیا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور پھر اسی شخص کے ساتھ سیاسی مفاد کے لیئے گلے بھی لگ جاتے ہیں اور اس کے بعد نہ گھٹیا الزام کا سامنا کرنے والا گلے لگنے میں عار محسوس کرتا ہے اور نہ الزام لگانے والا شرمندہ ہوتا ہے۔

ان سب حالات کے بعد صرف عوامی ردعمل کو دیوالیہ پن سے تشبہی دینا مناسب نہیں ہے۔ جس طرح ہمیں حق نہیں کہ ہم کسی کے گھر آئی بیماری یا موت پر دھمال ڈالیں ویسے ہی سیاستدانوں کو بھی عوام کے دکھ درد میں دما چوکری مارنے کہ اجازت نہیں ہے۔  سیاسی قیادت کو بھی اپنے کردار پر نظر ثانی کی ضرورت ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ ہمیشہ سچ بولو تاکہ تمہیں قسم نہ اُٹھانی پڑئے ۔

المیہ یہ کہ اب تو سیاستدانوں کی قسموں پر بھی عوام یقین نہیں کر تے۔ دوسری طرف عوامی ردعمل کے برعکس دانشوار حضرات اپنے قلم کے جوہر دیکھا کر داد سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ افسوس جس ملک کا دانشور اپنا سودا کرلے وہاں اخلاق یا اخلاقیات کی کیا بات کی جائے اصل میں ملک کے دانشوروں کا حکمرانوں کی مدہاسرائی کرنا قلمی دیوالیہ پن ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :