بے اختیار چھلکتے آنسو

اتوار 16 ستمبر 2018

Mian Muhammad Ashfaq

میاں محمد اشفاق

میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر میری زبان کنگ ہو چکی تھی دونوں بزرگوں کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے خدا جانے کب سے درد کا آتش فشاں دل میں لیے بیٹھے تھے جو آج میرے آنے سے پھٹ گیا !میں نے اااتسلی دینا چاہی مگر دل سے آواز آئی آج انہیں نہ روکو دل کا بوجھ ہلکا ہو جانے دو ۔کافی دیر میں آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سنتا رہا بلا آخر اکرم کے والد نے اپنے آپ کو سنبھالااور اپنی شریک حیات اکرم کی ماں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہنے لگے ،چپ کر جاو بہت ہو گیا ہم اُس کے لیے کیوں آنسو بہائیں جو ہمیں بھول چکا ہے تم بھی اُسے بھول جاو، ہم تواُس کے لیے مر ہی چکے ہیں اب وہ بھی ہمارے لیے مر گیا ہے ۔

اکرم کے مرنے کی بات سُن کر بوڑھی ممتا تڑپ اُٹھی ،کہنے لگی خدا کا واسطہ اکرم کے اباّ اس طرح کی بات نہ کرو ،میرا اکرم برا نہیں ہے مصروف رہتا ہو گا اس لیے ہمیں فون نہیں کر تا ،پتا نہیں بیچارے کو کن کن مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہوگا، پردیس میں کوئی اُس کا خیال بھی رکھتا ہے کہ نہیں؟ ٹھیک سے کھانا بھی کھاتا ہے کہ نہیں؟بوڑھی اماں جی کی باتیں سن کر اکرم کے والد نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا بتائو بیٹھا اس کا بیٹا کہیں بھوکا تو نہیں سوتا! میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا بابا جی میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟کہنے لگے پوچھوں بیٹا ؟میں نے ایک ہی سانس میں بہت سے سوالات کر دیے ۔

(جاری ہے)

بابا جی معاملہ کیا ہے ؟اکرم کب سے بیرون ملک ہے ؟آپ کی اولاد کتنی ہے اور آپ اس طرح تن تنہا اس ٹوٹے پھوٹے گھر میں کیوں رہ رہے ہیں؟بزرگ نے ایک ٹھنڈی آہ لے کر کہا بیٹا کیا کرو گے یہ سب کچھ جان کر میں نے کہا اگر آپ مناسب خیال نہیں کرتے توکوئی بات نہیں !بزرگ نے کہا مناسب نہ سمجھنے کی کوئی بات نہیں خوامخوہ تمہارا وقت ضائع ہو گا۔ میں نے کہامیرے پاس بہت وقت ہے اگر آپ مناسب جانیں تو۔

۔۔۔ بزرگ نے اپنی داستان کا آغاز کچھ اس طرح سے کیا !میں آرمی میں ملازم تھا میری پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ،بیٹے سے تین بڑی اور دوچھوٹی بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹیوں کی شادیاں تو میں نے اپنی سروس کے دوران ہی کر دی تھی۔ اکرم کی شادی میں نے ریٹارمنٹ کے بعد اپنی بھانجی سے کر دی ۔میرا صرف ایک ہی بیٹا تھا اس لیے شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی ۔میں نے اپنی جمع پونجی کا کچھ حصّہ اکرم کی شادی پر خرچ کر دیا اور باقی جو پیسے بچ گئے اُ س سے اکرم کا ویزا خرید کر اُسے بیرون ملک بھیج دیا۔

سوچا تھا کہ اکرم بیرون ملک سیٹ ہو جائے گا تو اپنی بہنوں کی شادی میں میرا ہاتھ بٹائے گا مگر۔۔۔۔۔۔۔آنسوں کی وہ برسات جو چند لللمحے پہلے روکی تھی ایک بار پھر شروع ہو گئی اور کچھ دیر مسلسل جاری رہنے کے بعد ایک بار پھر تھم گی۔ بزرگ نے ایک بار پھر کلام کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں تو اکرم ہمیں پیسے بھی بھیجتا تھا اور فون بھی کرتا تھا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا جب بھی اکرم کے پیسے آتے تو اکرم کی بیوی اکرم کی ماں سے کسی نہ کسی بہانے جھگڑا شروع کر دیتی ۔

گھر کا سکون ختم ہو چکا تھا، میں جب بھی اکرم کی بیوی کی شکایت اکرم سے کرتا وہ اُلٹا اپنی ماں کو ہی بُرا بھلا کہتا۔مجھے بیٹیوں کی شادی کی فکر کھائے جا رہی تھی میں نے اکرم سے کہا بیٹا اگر تم کہو تو میں تمہاری تنخواہ سے کمیٹی ڈال لیتا ہوں کہ تمہاری بہنوں کی شادی کے لیے کچھ رقم جمع ہو سکے ۔ میری بات سن کر اکرم نے انکار تو نہ کیا البتہ ہاں بھی نہ کی۔

اگلی بار جب اکرم نے رقم بھجوائی تو میں نے اُس میں سے کچھ پیسے کمیٹی کے لیے رکھ کر اپنی بہوو کو دے دیے ۔بہو نے کمیٹی کی رقم کے بارے میں پوچھاتو میں نے تفصیل بتا دی۔ اس بات پر بہو نے جھگڑا شروع کر دیا اور اسی جھگڑے کے دوران بہو نے اکرم کی اندھی ماں کو جوتوں سے مارنہ پیٹنا شروع کر دیا۔ محلے کی عورتوں نے اکرم کی بیوی کو برا بھلا کہا اور اُس اندھی عورت کی جان بچائی ۔

میری بہو کا کہنا تھا کے کمائی میرے خاوند کی ہے اُس کے پیسوں پر ہمارا ہے حق اگر آپ نے اپنی بیٹیوں کی شادی کرنی ہے تو خود کریں ۔اس جھگڑے نے میری بیٹیوں کے دل پر بہت گہرے آثرات چھوڑے۔ایک دن اکرم کی ماں کی طبیت خراب ہو گی میرے پاس اُسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانے کے لیے پیسے نہیں تھے میں نے اپنی بہو سے مانگے تو اُس نے صافٖ انکار کر دیا۔ اکرم کی ماں کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی میں گاوں کے ایک دوست سے پیسے اُدھار لے کرڈاکٹر کے پاس گیا۔

جب واپس لوٹا تو گھر کے صحن میں دونوں بیٹیوں کی لاشیں پڑی تھیں ! اُن کے ہاتھ میں ایک خط تھا جو میرے اور اکرم کی ماں کے نام تھا جس میں لکھا تھا کہ آپ ہماری وجہ سے پریشان نہ ہوں ہم سے آپکی حالت نہیں دیکھی جا رہی تھی اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم زہر پی کر آپ کو ان غموں سے نجات دلا دیں۔بزرگ نے کہا میری دونوں بیٹیاں ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں اکرم اُن کے جنازے میں بھی شامل نہ ہوا ۔

ان سب حالات کا نہ اکرم پر کچھ اثر ہوا اور نہ اُس کی بیوی پر۔ اکرم نے الگ مکان بنا لیا آج پانچ سال ہوچکے ہیں نہ اکرم ہمیں فون کرتا ہے اور نہ اُس کی بیوی نے کبھی ہماری گھر قدم رکھا ہے ۔بزرگ نے کمال استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا اکرم جیسی اولاد کا ہونا یا تو ہمارے گناہوں کی سزا ہے جو دُنیا میں ہی مل گی ہے یا یہ اللہ کی آزمائش ہے ،جو بھی ہو میں خوش ہوں کہ اللہ نے مجھے اور میری بیوی کو ایمان سے نوازہ ہے اولاد تو پیغمبروں کا بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہے ہم تو پھر گنہگار انسان ہیں ۔

۔۔۔۔۔دروازے پر دستک ہوئی بزرگ نے پوچھا کون ہے بھائی اندار آ جاو۔ باہر سے آواز آئی ابو کے دوست کو ہمارے گھر بھیج دیں ۔یہ اکرم کے بیٹے کی آواز تھی ! بزرگ نے کہا جاو بیٹا اکرم کی بیوی پریشان ہوگی کہیں تم پیسے ہمیں نہ دے دو ۔ پیسوں کا نام سن کرمیں چونکا کیونکہ میں نے تو اس کا ذکر تک نہ کیا تھا۔میں نے کہا آپکو کیسے پتا کہ میں ۔۔۔۔میری بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کے بزرگ نے کہا جاو بیٹا تمہارا یہاں زیادہ دیر رہنا ہمارے لیے ٹھیک نہیں اب تو ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ ہے بھی نہیں ۔

میں جب گھر کے باہر پہنچا تو اکرم کا بیٹا اور اُس کی بیوی دروازے کے ساتھ کان لگائے کھڑے تھے ،اکرم کی بیوی شکل سے ہی مکار اور لالچی عورت نظر آ رہی تھی میرا اس بے حس عورت سے بات کرنے کو دل نہیں کررہاتھا۔ اُس نے مجھے گھر کے اندار آنے کی دعوت دی۔ میں نے اُسے گلی میں رقم دینا چاہی توکہنے لگی بھائی صاحب آپ نے پیسوں کے متعلق مائی بابے کو تو نہیں بتایا؟ اُس نے جس گھٹیا انداز سے اپنےساس سسر کو مخاطب کیا تھا اُس سے میرے تن بدن میں آگ لگ گئی میں مجبور تھا اُسے کچھ کہا نہیں سکتا تھا۔

اُس نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا بھائی صاحب دیکھیں نہ مہنگائی کس قدربڑھ گئی ہے گزارہ کرنا بہت مشکل ہے ۔اس لیے پیسوں کو فضول خرچ کرنے سے ڈرتی ہوں اکرم تو پاگل ہیں پیسے بھجتے ہیں تو سب کو بتا دیتے ہیں۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو میں نے کہا بہن جی آپ سے ایک بات کہوں !جی بھائی جان کیوں نہیں کہیں کیا بات ہے ؟میں نے کہا اکرم کی ماں ان پڑھ اور بے وقوف عورت تھی اکرم کی تربیت ٹھیک طرح نہ کر سکی میری بات سن کر اُس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔

میں نے کہامیں آپ کو ایک مشورہ دیتاہوں آپ اُس پر عمل کریں ،آپ ابھی سے اپنے بیٹے کی تربیت شروع کردیں اُسے آج ہی سے بتادیں کے اُس کی کمائی پر اُس کے بیوی بچوں کا حق ہے ۔ اُس کے ماں باپ کا حق نہیں ہوتا، اُسے سمجھا دیں کے جب اُسکے ماں باپ بوڑھے ہوجائیں تواُنکی خدمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اُنہیں کسی پُرانی حویلی میں قید کر دینا چاہیے اور ہاں یہ بھی ضرورربتائے گاکہ بہنوں کی شادی کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں اُن کو زندہ ہی درگور کرنا عقل مندی ہے ! میری باتیں سن کہنے لگی بھائی صاحب اپنی حد میں رہیں ۔

میں نے کہا میں اپنی حد میں ہی ہوں مگر میری بہن جو آج بیجو گی کل وہی کاٹنا پڑے گا۔ یہ کہا کر میں واپس اپنے محسن کے گھرآ گیامیری تمنا تھی کے میں انکو کچھ رقم دے دوں مگر اُن خودار بزرگوں نے میری پیشکش کو شرف قبولیت نہ بخشا کچھ دیر بیٹھنے کے بعد میں وہاں سے رخصت ہو ا ۔آج اس واقع کو بیان کرنے کے بعد دل نہیں چاہتا کہ اس پر کوئی تبصرہ کروں ۔بس اتنا ہی کہوں گا کہ ہم اخلاقی ذوال کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ ذوال ہمیں جہنم کے راستے پر گامزن کر چکا ھے
بے برکتی بے حسی کی گرم ہوا جو شہروں میں چل نلکی ھے اس کی تپش اب دیہات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ھے۔ جب میں گاوں واپسی کی طرف نکلا تو راستے میں دونوں بزرگوں کے حالات بارے سوچ کر بے اختیار آنسو چھلک رہے تھے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :