تیرے بہر کی موجوں میں ازطراب نہیں

جمعہ 31 اگست 2018

Mian Muhammad Ashfaq

میاں محمد اشفاق

تحریک انصاف اقتدار میں آ چکی ۔آثار دیکھ کر لگتا یہی ہے کہ مجھ جیسے بہت سے تبدیلی کے خواہشمندوں کو مایوسی ہو گئی ۔ویسے یہ مایوسی بھی شاید ہم سے محبت کر بیٹھی جو ساتھ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور ہم بھی اس محبت کے عادی ہوچکے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ شروع ہی سے ملکی سیاست میں ہمیشہ دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلاف موجود رہے۔

یہی تفریق کالم نویسوں، رپوٹرز اور اخبارات میں بھی موجود تھی ۔عوام بھی انہی نظریات کے اختلاف کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کرتے رہے۔ دائیں بازوں کی جماعتوں میں مسلم لیگ نوازجماعت، اسلامی، جمعیت علماء اسلام(ف) جمعیت علماءاسلام (س) جمعیت علماء پاکستان وغیرہ شامل تھیں۔،دوسری طرف بائیں بازو کی جماعتوں میں پیپلز پارٹی ،اے این پی، پختوخواہ ملی پارٹی وغیرہ شامل تھیں، جب بھی سیاسی اتحاد کی ضرورت ہوتی تو یہی جماعتیں آپسی اتحاد قائم کرکے حکومت میں پوزیشن حاصل کرلیتی، داخلی اور خارجہ پالیسی پر بھی دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق تھا، ایک کے لیئے مذہب اوڑھنا بچھونا جبکہ دوسری جماعتیں مذہب کے سیاست میں استعمال کے خلاف تھیں۔

(جاری ہے)

کشمیر ایشوء پر بھی دونوں الگ الگ رائے رکھتے تھے، غرض دن اور رات جیسے اختلافات اور عقائد ہونے کی وجہ سے اقتدار کسی کے بھی پاس ہوتا ہمیشہ اپوزیشن موجود رہتی تھی۔ پھر مشرف کے مارشل لاء نے مذہبی اور سیکولر جماعتوں کو اکٹھا کر دیا۔ دائیں بازو والی جماعتوں نے اپنے کارکنان کو جن بنیادوں پر متحرک رکھا اُن میں مشرف کا سیکولر ذہنیت کا مالک ہونا، افغانستان میں مسلمانوں کے قتل عام میں امریکہ کا ساتھ دینا،کشمیر پر سودئےبازی، متنازعہ سرحد پر باڑ لگانا، مغربی دُنیا کو خوش کرنے کے لیئے لال مسجد جیسا سانحہ کر گزرنے جیسے بیشمار فیصلے موجود تھے(حالانکے جس وقت لال مسجد کا سانحہ ہو رہا تھا اُس وقت تمام مذہبی جماعتیں ملکی حالات سے لا تعلق لندن میں سیاسی اتحاد بنا رہی تھیں)جبکہ بائیں بازو کی جماعتوں نے مارشل لاء کو بنیاد بنا کر اپنے ووٹر کو متوجہ کر لیا اور یوں آگ پانی اکٹھے ہوئے اور پھر جدا نہ ہو سکے۔

سیکولر جماعتیں تو اپنےنظریات پر قدرِ قائم رہیں مگر کشمیر کی آزادی پر سینکڑوں کارکنان قربان کرنے والی جماعتوں کے لیئے مسئلہ کشمیر اہم نہ رہا۔ مشرف دور میں قادیانیت کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے کے شائبہ پر احتجاج کرنے والے ناموسِ رسالت کے قانون میں ترمیم پربھی ( ایک رائے کے مطابق مصلحت جبکہ دوسری کے مطابق منافقت کا شکار رہے) پھر عمران خان سیاسی منظرنامے پر نمودار ہوا جس نے مدینے کی ریاست کی بات بھی کی اور جلسے کو نوجوانوں کی تفریح کا ذریعہ بھی بنا دیا جہاں سیاسی مضالفین کی کلاس بھی لی جاتی اور ناچ گانا سے بھی لطف اندوز ہوا جاتا رہا۔

اپنی اس پالیسی سے عمران خان نے(خوش رہے بگوان بھی راضی رہے رحمان بھی) کے مصداق دونوں ہی نظریات والی جماعتوں کے ووٹر کو متاثر کر لیا۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد جمعیت علماء اسلام ف اور دیگر سیکولر جماعتیں مسلم لیگ نوازکی اتحادی بن کر وفاق میں جبکہ جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرکے صوبے میں اقتدار انجوئے کرنے لگیں۔ ان پانچ سالوں میں سیکولر جماعتوں کی قیادتوں کی جانب سے کرپشن کے ریکارڈ توڑے گئے لیکن نیک اور پارسا مذہبی قیادتیںخاموشی سے ان ریکارڈ کو بنتا دیکھتی رہیں۔


ہمیں خبر ہے لوٹریروں کے سب ٹھکانوں کی
شریک جرم    نہ ہوتے ۔۔۔۔۔تو مخبری کرتے
سوال یہ ہے کہ گزشتہ دیہائی میں مذہبی جماعتوں کی قیادت کی جانب سے اسلام کے نفاذ یا عوام کی فلاح کے لیئے کیا کوشیشیںکی گئیں؟ اگر کچھ کیا گیا ہے تو کم سے کم میں تو اس سے لاعلم ہوں۔ 2018ء کے الیکشن میں اچانک اسلام کے نفاذ کے لیئے ایم ایم اے کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی گئی با خبر ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ میاں نواز شریف کی خواہش پر کیا گیا تاکہ کے پی کے میں عمران خان کو شکست دی جا سکے۔

میری رائے تو یہ ہے کہ 2013 میں بھی نواز شریف کے پی کے میں تحریک انصاف کو حکومت دینا چاہتے تھے اسی لیئے جماعت اسلامی تحریک انصاف کی اتحادی رہی اگر نواز شریف اتحاد نہ چاہتے تو کبھی اتحاد برقرار نہ رہتا۔ حمزہ شہباز شریف بھی متعدد بار شکوہ کر چکے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ 2013 میں ہم نے تو تحریک انصاف کو حکومت بننے دی تھی مگر 2018 میں ہمیں پنجاب میں حکومت نہیں بنانے دی گئی۔

گویا جماعت اسلامی کی پالیسی نواز شریف کی خواہش کے تابعے تھیں۔ خیر گزشتہ 20 سال میں جس قدر سیاستدانوں نے عوام کو مایوس کیاہے اس سے کہیں زیادہ مذہبی رہنماؤں نے عوامی امنگوں پر شب خون مارا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام نے انہیں مسترد کرکے نئی جماعت (پی ٹی آئی )کو اقتدار سونپ دیا ہے۔اب ان جماعتوں سے ہار برداشت نہیں ہو رہی اور اقتدار کے لالچ میں سب اکٹھے ہیں اپ تصور کریں سیکولر نظریات کی جماعت اے این پی صدر پاکستان کے عہدے کے لیئے مذہبی جماعت کے سربراہ فضل الرحمان کا نام تجویز کر رہی ہے۔

۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔۔۔سبحان اللہ۔۔۔۔۔ موجودہ صورتحال میںسیاست دانوں اور دیگر جماعتوں سے تو اس بات کی امید نہیں کہ وہ خود احتسابی کرکے اپنی پالیسیوں پر غور فکر کریں کہ عوام کی جانب سے اس قدر غیر مقبولیت کی وجوہات کیا ہیں ۔کم از کم جماعت اسلامی سے یہ امید ضرور کی جاسکتی ہے کیونکے جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جہاں شخصیت پرستی کی بجائے تقوی نظریات اور کردار کی بنیاد پر امیر مقرر کیا جاتا ہے اور تمام فیصلے شعوری کی رائے کے مطابق کیئے جاتے ہیں لوگ مجھ سے آکثر سوال کرتے ہیںکہ آپ جماعت اسلامی پر تنقید کیوں کرتے ہیں ان دوستوں سے گزارش ہے جماعت اسلامی باقی جماعتوں سے بہت بہتر جماعت ہے جس کے کارکنان اسلام اور ملک پر ہر وقت قربان ہونے کے لیئے حاضر ہوتے ہیں۔

میری مخالفت پالیسی سازوں کی پالیسیوں سے ہے۔ جنہیں دیکھ کر لگتا نہیں کہ وہ ملک و قوم کے مفاد کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہیں۔ ان پر کسی ایک سیاسی جماعت کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور یہ آثرات فی سبیل للہ تو یقینا نہیںہوسکتے ۔مجھے لگتا ہے کہ یا تو آجکل فیصلے شعوری کی بجائے شخصیات کے ہاتھ جا چکے ہیں یا شعوری میں ایسے لوگ آچکے جن کے ہاتھ عوام کی نبض کی بجائے چیک بک پر ہیں۔

مجھے خدشہ ہے کہ کہیں نہ کہیں مالی مفادات اور قومی مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے اور اس ٹکرؤ میں ہمیشہ ذاتی مفادات جیت جاتے ہیںاور یہ صرف میرے نہیں بلکے جماعت اسلامی سے امیدیں رکھنے والے بیشمار لوگوں کےخدشات ہیں ۔ان خدشات کو دور کرنے اور جماعت اسلامی کی متاثر ہونے والی ساخت کو بہتر کرنے کے لئیے امیر جماعت اسلامی کو اقدامات کرنا چاہیں تاکہ کل اگر تحریک انصاف عوامی امنگوں پر پورا نہ اُترے تو عوام کو متبادل صاف ستھری اور محب وطن قیادت فراہم کی جاسکے۔

یہ صرف خواہش کرنے سے نہیں بلکہ عمل کرنے سے ہوگا۔ وہ دور گزر چکا جب محض نعروں سے عوام کا پیٹ بھر جاتا تھا آج کا نوجوان نعروں پر نہیں پرفارمنس پر یقین رکھتا ہے۔اس لیئے جماعت اسلامی ہی واحد جماعت رہ جاتی ہے جس میں عمل کی نیت اور سکت موجودہے ۔یہ الگ بات کہ موجودہ پالیسیوں کو ری وزٹ کیئے بنا یہ ممکن نہیں اس لیئے امیر جماعت کو انتہائی غیر معمولی اقدامات کرنا ہونگے۔

امیر جماعت اسلامی کو چاہیے کہ وہ نیب چئیر مین، ایف آئی اے حکام، چیف جسٹس اور وزیر اعظم پاکستان کو خطوط لکھیں اور اُن سے مطالبہ کریں کہ ان کی جماعت کے عہدے داروں کاآڈیٹ کیا جائے۔اس سےآڈیٹ سے اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو منظر عام پر آ جائے گئی نہ ہوئی تو احتساب کی ایسی بہتریں مثال دنیا کے سامنے پیش کی جا سکے گئی جس کی موجودہ دور میں تو کوئی نظیر ہی موجود نہیں ہے۔

امیرجماعت اسلامی اس احتساب کا آغاز اپنے آپ سے کروائیں تاکہ کسی کو کوئی اعتراض ہی نہ رہے۔ یہ احتساب سالٹ احتساب ہونا چاہیے ۔مٹی پاؤ احتساب نہیں ہونا چاہیے کہ ایک بندہ کھڑا ہو کر اپنی صفائی پیش کر دئے اور باقی واہ واہ کرکے مٹی ڈال دیں یہ محض خانہ پوری ہوگی۔ایسا احتساب ہونا چاہیے جس میں اکاونٹس کی تفصیلات کا جائزہ لیا جائے۔بیرون ملک کس نے کتنے دورے کس کے خرچ پر کیئے ان کی تفصیلات سامنے آنی چاہیے۔

یہ بھی دیکھا جائےکہیں پانامہ لیکس، دبئی لیکس وغیرہ میں کسی شعوری ممبر یا عہدے دار کا نام تو موجود نہیں ہے؟ ملک سے باہر کس کی کتنی جائیدادیں ہیں ؟ شعوری ممبران اور عہدے داروں کے بیوی بچوں کے اثاثے بھی چیک کیئے جائیں۔غرض احتساب کے لیئے تمام آپشنز استعمال کئیے جائیں۔کم از کم مالی بد عنوانی کے حوالے سے ثبوت الزام لگانے والے سے مانگنے کی بجائے ان شخصیات کے اثاثے چیک کیئے جائیں جن پر الزام لگائے جا رہے ہیںکیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر الزام لگا تو صفائی آپ رضی اللہ عنہ نے پیش کی تھی نہ کہ الزام لگانے والےبدئو نے ثبوت پیش کیئے تھے۔

بدو نےتو صرف نشاندہی کی تھی۔ اس لیئے جماعت اسلامی کو موجودہ احتساب پالیسی پر بھی غور کی ضرورت ہے۔ صاف شفاف اور بے لاگ احتساب ہی جماعت اسلامی کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر کر سکتا ہے۔ اگر اس احتساب سے جماعت اسلامی کی قیادت سرخروح ہوکر نکلے تو پانچ سال ڈٹ کر اپوزشن کی جائے۔ اپنے نظریات اور منشور پیش کیا جائے. طیب اردگان کی مثال تقریروں کی بجائے عمل کے لیئے دی جائے، اگر یہ سب کر لیا جائے تو انشاءاللہ آنے والے الیکشن میں جماعت اسلامی کی پوزشن قابل ذکر ہوگی۔

جماعت اسلامی کے پاس ترزو جیسا خوبصورت انتخابی نشان موجود ہےاس لئیے الیکشن ترازوکے نشان پر لڑا جائے۔ کوئی مانے چاہے نہ مانے کتاب کا نشان عوام کی نظروں میں مشکوک ہوچکا ہے اقبال نے فرمایا تھا
خدا تجھےکسی طوفاں سے۔۔۔۔آشنا کر دئے
کہ تیرے بحر کی موجوں میںازطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن ۔۔۔نہیں۔۔ فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے مگر صاحب ِکتاب نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :