خشک سالی اور بد اخلاقی کاسمندر۔۔خطرہ دو طرفہ ہے

منگل 11 ستمبر 2018

Mian Muhammad Ashfaq

میاں محمد اشفاق

وہ بستر مرگ پر تھی علاقے کی تمام خواتین پرُنم آنکھیں لیے اُس کے گر د کھڑی اُس کا آخری دیدار کرنے کے لیے بیتاب تھیں۔وہاں موجود سینکڑوں خواتین میں سے کوئی ایک بھی اُس کی عزیز رشتہ دار نہ تھی اور نہ کوئی اُس کے اباؤ اجداد کے بارے میں جانتی تھی۔ اگر کسی کو کچھ علم تھا تو بس اتنا کہ وہ بہت نیک ،باپردہ اورباحیاء خاتون ہے ،اُسے کبھی کسی غیر مرد نے نہیں دیکھا ،کسی نا محرم نے کبھی بات نہیں کی !اُس کی زندگی اُس کی سیرت کی گواہ تھی ۔

کم عمری میں اُس کی شادی ایک نیک شخص سے ہوئی خاوند اُسے لے کر بھارت کے شہر احمدآباد آ گیا ۔دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ زندگی نارمل انداز سے گزر رہی تھی کہ ایک دن ہندو مسلم فسادات ہوئے جس میں سیکڑوں مسلمان مار دیے گئے ۔

(جاری ہے)

مرنے والوں میں اُس کا خاوند بھی شامل تھا اُس کی تو دُنیا ہی اُجر گئی ۔ دُنیا میں اُس کا واحد سہارا فسادات کی نظر ہو چکا تھا اب خدا کے علاوہ اُس کا کوئی مددگار نہ تھا ،لوگوں نے اُسے شادی کا مشورہ دیا مگر اُس نے انکار کر دیا۔

وہ لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گزارہ کرتی تھی ،وہ دن بھر محنت مزدوری اور رات عبادات میں مصروف رہتی اسی شدید محنت نے اُسے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا اب وہ بیمار اور لاچار بستر مرگ پر تھی اور علاقہ کی تمام خواتین اُس کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے اُس کے پاس موجود تھیں ،وہاں موجود ایک عمر رسیدہ خاتون نے اُسے کہاکہ تم ان خواتین کو کوئی نصیحت کر دو۔

اُس نیک سیرت خاتون نے بلا کسی تاخیر تمام خواتین سے استفسار کیا کہ میری جوانی اور میرا بڑھاپا آپ تمام کے سامنے گزرا ہے آپ لوگوں نے میرے کردار کو کیسا پایا؟تمام خواتین نے یک زبان اس بات کا اظہار کیا کہ آپ نیک اور با کردار خاتون ہیں آپ کے کردار پر کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکتا ! نیک عورت نے خواتین سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر آپ مجھے نیک اور با کردار سمجھتی ہیں توروزِ محشر میری گواہی ضرور دینا اور ایک بات غور سے سن لو میں نے بیوہ ہونے کے بعد شادی نہ کر کہ بہت غلط فیصلہ کیا تھا کیونکہ میں جوان تھی اور فطری مجبوریاں میرے ساتھ بھی تھی ان حالات میں رات کو جب کوئی مرد گلی سے گزرتا یا چوکیدار کی سیٹی کی آواز میرے کانوں میں پڑتی میرا دل یہ چاہتا تھا کہ میں اُسے اپنے کمرے میں بلوا لوں مگر شرم و حیا اور اللہ کا خوف مجھے اس عمل سے روکتا رہایوں میں اللہ کے کرم سے برائی سے بچتی رہی اس لیے تم میں سے کوئی بھی عورت طلاق لے یا بیوہ ہو جائے اُسے چاہیے کے عدت کے بعد فوری شادی کر لے تاکہ زندگی آسان اور گناہوں سے پاک رہے !یقینااس واقع سے شادی جیسی نعمت کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ ہوتا ہے ،ذرہ غور کریں اگر اسلام میں تمام عمر شادی کے بغیر گزارنے کا حکم ہوتا تو ہم سب کے لیے کتنی مشکلات ہوتی ،ربّ کریم کا شکر ہے کہ جس نے شادی کو حلال کر کے ہمیں گناہوں سے بچنے کا طریقہ بتا دیااور ایسا اس لیے کیا گیا کہ اللہ کے نزدیک شادی انتہائی اہم اور مقدس فریضہ ہے جس کے متعلق قرآن میں بڑی ہی تفصیل سے امت کی رہنمائی کی گئی ہے،شادی دو اجنبی انسانوں کے درمیان باہمی پیار محبت ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ دو خاندان کو ملانے کا ذریعہ بھی بنتی ہے ۔

مردو خواتین دونوں کو ہی ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے نہ مرد کا عورت کے بنا زندگی گزارنا آسان ہے اور نہ ہی عورت کے لیے مرد کے بغیر زندگی کا سفر ممکن ہے اسی لیے اسلام نے مرد و عورت پر شادی کو واجب قرار دیا ہے تاکہ ایک دوسرے کا سہارا بن سکیں ۔اسلام دین فطرت ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اُن روایات کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ،آپ پردے کو ہی لے لیں اسلام کے ماننے والے پردے کے خلاف اس طرح بات کرتے ہیں جیسے عین اسلام ہو ۔

4 ستمبر کو پوری دُنیا میں عالمی حجاب کا دن منایا گیا ۔چاہیے تو یہ تھا کہ میڈیا پر حجاب کی اہمیت کے حوالے سے پروگرام کروائے جاتے مگر صد افسوس کہ پاکستانی میڈیا نے اسےvalentine's day کی طرح اہمیت نہ دی۔ اسلامی ملک میں بے حیائی کی پزیرائی اور پرموشن کی جا رہی ہے مگر حیا ء کو گالی بنایا جا رہا ہے ،نام نہاد روشن خیال تاریک ذہن لوگ اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنے کی بھرپور کوشش کرتے نظر آتے ہیں اگر حجاب نہ کرنے والی خواتین کی اپنی مرضی اور منشا ء ہے تو حجاب کرنے والی با حیا ء خواتین کی ذاتی خواہش کا احترام بھی لازم ہے ،یوں توحجاب کے حوالے سے قرآن اور احادیث اور فکاء کی کتابوں میں بے شمار دلائل موجود ہیں مگر یہاں اسلامی دلائل پر تو بات ہی نہیں کی جاتی۔

بس اسی پر زور ہے کہ آزادی عورت کا بنیادی حق ہے جبکہ جتنے حقوق عورت کو اسلام نے دیے اس کی دُنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ! زمانہ جاہلیت میں عورت کے حقوق اور آزادی کا کوئی تصور نہیں تھا ۔یہود و نصاریٰ ،یونانی ،ایرانی ،اور ہندی معاشرے اپنی اپنی تہذیب وتقاضوں کے علمبردار تھے اور عورت اُن کے لیے محض تفریح اور عیاشی کا ذریعہ تھی۔مگر بعدازاں جوں جوں اسلامی معاشرے اور تمدن کی بنیاد بڑھتی گئی عورت کے حقوق اور آزادی میں بھی اضافہ ہوتا گیا ،حتیٰ کہ شریعت مطہرہ نے عورت کو شرم و حیا ء کا پیکر اور مرد کی عزت قراردے دیا ۔

اسلام نے عورت کو سب سے پہلے عزت دی اور معاشرے میں اُسے فخر اور عزت کا باعث بنایا ۔مسلمان خواتین کا کفّار عورتوں کے درمیان جس چیز سے تفریق دی گی اسلام اُسے حجاب کہتا ہے ۔دل تو چاہتا ہے کہ اس موضوع پر علمی بحث کی جائے مگر مسئلہ یہ درپیش ہے کہ یہاں بات علم دلائل سے کی ہی نہیں جاتی بلکہ میں نہ مانوں کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے ۔اپنے آپ کو آزاد کہنے والا میڈیا بھی اُن لوگوں کے ہاتھوں میں قید ہے جو اسلام سے بیزار ،محض اپنی عیاشیوں کے فروغ کے لیے دوسروں کو اسلامی احکامت پر چلنے سے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ اسلام یا اسلام کے ماننے والوں کو گالی دے کر ہی وہ بڑے تجزیہ نگار یا سکالر بن سکتے ہیں یہ اسلامی احکامات کا مذاق اُڑاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بھی تو مسلمان ہی ہیں، اس بات سے مراد یہ لی جانی چاہیے کہ اگر یہ اس حکم پر ہم عمل نہیں کرتے تو کوئی اور بھی نہ کرے !اگر اسلامی احکامات پر عمل نہیں کرنا تو نہ کرو مگر اُس کے خلاف بات کرناکہاں کی اسلامی خدمت ہے ؟ اسلام کیا ہے اور کن باتوں سے روکتا ہے کیا یہ سب بیرونی سرمائے سے چلنے والی NGO بتائیں گی ؟کیا دُنیا میں اپنی مرضی اور خواہش پر حجاب کرنے والی خواتین موجود نہیں؟اگر ہولی ،کرسمس ،ایسٹر ،اور تو اوربے حیائی کے تہوار valentine's day پر پروگرام ہوتے رہے ہیں تو حجاب کے عالمی دن پر کیوں نہیں؟شاید اس لیے کہ اس کے لیے اسلام دشمن قووتوں کاسرمایہ استعمال نہیں ہو رہا ۔

یوں اسلام کو دی جانے والی گالی سے یقینا دل دکھتا ہے مگر کیا اسلام کے خلاف کی جانے والی سازشیں کبھی کامیاب ہو سکیں گی ؟انشاللہ کبھی نہیں۔کبھی بھی اسلام کے ماننے والوں کو اسلام سے بیزار نہیں کیا جاسکتا ۔اسلام قیامت تک قائم رہنے کے لیے آیا ہے۔ اسلام امن کا دین ہے اور اس امن کو چند شر پسند برباد نہیں کر سکتے وہ شر پسند بھلے بارود کی جیکٹ پہن کر آئیں یا چاہے اینکر یا تجزیا کار بن کر اس کی بنیاد کھوکھلی کرنا چاہیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے !ْ اللہ بھلا کرے عدلیہ کا جس نے valentine's day پر پرگرام کرنے کی پابندی لگوا کر بے لگام میڈیا کو لگام ڈالی ہے۔

اب عدلیہ کو چاہیے ٹی وی پر چلنے والےCondemnکے اشتہارات کا جائزہ بھی لیں۔ جنہیں فیملی میں بیٹھ کر دیکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ایسے اشتہارات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں سینسر شپ کا کوئی نظام سر ے سے موجود ہی نہیں ہے ۔گزشتہ حکومتوں نے تو اداروں کو برباد کرنے میں کسر نہیں چھوڑی مگر سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت بھی اس ضمن میں کوئی اقدام اُٹھائے گئی ؟ عمران خان صاحب اگر ڈیم نہ بننے سے خشک سالی کا خدشہ ہے تو میڈیا پر سینسر شپ نہ ہونے سے نوجوان نسل بد اخلاقی کے سمندر میں غرق ہو جائے گئی۔ہم نے آنے والی نسلوں کو خشک سالی اور بد اخلاقی کا سمندرمیں غرق ہونے سے بچانا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :