تباہی کا گڑھا

جمعرات 25 مئی 2017

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

سٹیفن ہائیکنگ سمیت مختلف علوم ماہرین تواترکے ساتھ دنیا کو خبردارکررہے ہیں انسانی ترقی کا منہ زور گھوڑا آخرکار نوح انسانی کو تباہی کے گڑھے لے جا پھینکے گا مگر دنیا کے ”معاشی درندے“اس کی پرواہ کیئے بغیراندھا دھند اس دوڑکو تیزسے تیزتر کیئے جارہے ہیں-کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم کتنی محنت ‘مشقت سے پیسہ کماتے ہیں اور پھر اپنی خوشی سے ان ” معاشی دہشت گردوں“ کے حوالے کردیتے ہیں ہم جسمانی غلامی کے دور سے نکل کر بدترین معاشی اور ذہنی غلامی کے دور میں داخل ہوئے جسے سائنس اور ٹیکنالوجی کی معراج کا زمانہ قراردیا جارہا ہے مگر ہم بھول رہے ہیں کہ ہم سے بھی زیادہ ترقی یافتہ اقوام کو ”حد سے تجاوز“کرنے پر ختم کردیا گیا ‘ان کے محل ‘چوبارے عبرت کے لیے محفوظ کردیئے گئے مگر انہیں تباہ بربا د کردیا گیامگر انسان کہاں عبرت حاصل کرتا ہے-خبر کے مطابق دوبئی میں پہلے ربوٹ پولیس آفیسرنے ”ڈیوٹی“شروع کردی ہے جبکہ فیکٹریوں ‘کارخانوں میں پہلے ہی ربوٹ کام کررہے ہیں جسے ہم ترقی اور جدت کی علامت قراردے رہے ہیں دراصل وہ تباہی اور بربادی کی علامت ہے-اپنے کئی مضامین میں امریکا کے بڑے بڑے سٹوروں میں ”سیلف چیک“کا ذکر کرچکا ہوں کہ لاکھوں کیا اربوں انسانوں کا روزگار خطرے میں ہے -سائنس پرایک اردو رسالے کے لیے تحقیق کے دوران انتہائی خطرناک اعداد وشمار سامنے آئے کہ صوبہ پنجاب جسے اناج گھر کہا جاتا تھا اور ہماری ستر فیصد سے زائدآبادی دیہی علاقوں پر مشتمل تھی اس پنجاب کے کھیت کھلیان اب اجڑرہے ہیں ‘پچھلے تیس برس سے پنجاب میں ایک انچ زمین بھی زیرکاشت رقبہ میں شامل نہیں ہوئی بلکہ لاکھوں ایکٹرزرعی اراضی صرف لاہور شہر میں ”معاشی دہشت گردی“کی نذرہوگئی-پنجاب کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں آپ کو میلوں ‘میل رہائشی کالونیاں بنتی نظرآئیں گی یہ رجحان خطرناک ہی نہیں خودکشی کے مترادف ہے اب اس کا سائنسی ترقی سے کیا تعلق ؟تو جناب دیہی علاقوں کے لوگ اپنی زمینیں بیچ کر مریخ پر تو جانہیں رہے وہ بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں اور شہروں میں آٹومیٹیڈ زندگی شروع ہوچکی ہے جس سے نوکریاں ختم ہوتی جارہی ہیں ایک پروڈیکشن یونٹ جسے پانچ سو ورکرزکی ضرورت ہوتی تھی اب صرف پانچ ورکرزکے ذریعے چلایا جارہا ہے-انسانوں کی تعداد میں اضافہ اور نوکریوں اور کاروبار کے مواقع میں کمی سے عام شہریوں کا معاشی توازن تیزی سے بگڑرہا ہے -دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے شہری بھی شدید معاشی دباؤ کا شکار ہیں جو ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوکر سینکڑوں کی تعداد میں ہرورزقبروں میں اتررہے ہیں -ماہرین متفق ہیں کہ بیماری کی اصل جڑمعاشی دباؤ اور زندگی کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہے یہی وجہ ہے کہ شہروں کے مقابلے میں دیہات یا چھوٹے قصبات کے لوگ زیادہ خوش ‘مطمئن اور صحت مند ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس ”دوڑ“میں شامل نہیں ہوئے جس کا شکار ہم بڑے شہروں کے لوگ ہیں-آٹومیٹیڈ زندگی انسان کی تحقیقی صلاحیتوں کو بھی متاثر کررہی ہے کیونکہ انسان آہستہ ‘آہستہ خود کو ٹیکنالوجی کا محتاج بنا رہا ہے ‘ٹیکنالوجی کی اہمیت اپنی جگہ مگر نوح انسانی کی تباہی کی قیمت پر نہیں-دنیا بھر میں اس وقت ایک خوفناک سائبروار جاری ہے ‘اب تک خوفناک ترین سائبرحملہ دوہزار پندرہ میں دنیا کے محفوظ ترین تصور کیئے جانے والے یوکرین کے ایٹمی پاور سٹیشن پر ہوچکا ہے اگرچہ حملہ آور یا آوروں نے صرف بجلی بند کی اور کچھ نہیں کیا لیکن تصور کریں کہ ایسے زمانے میں کہ جہاں بے چہرہ‘بے شناخت تنظیمیں ‘ادارے اور افراد سرگرم عمل ہیں اگر کوئی اسے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہے تو؟صرف کولنگ سسٹم کو بند کرنے سے ایٹمی بجلی گھر پھٹ کر اتنی ہی تباہی پھیلا سکتا ہے جتنی کوئی اٹیم بم ‘اس سے اندازاہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کتنے”محفوظ“ہیں -آٹومیٹیڈ زندگی ایک طرف عام شہریوں کو غریب سے غریب تر جبکہ مٹھی بھر خاندانوں کو دنیا بھر میں امیر سے امیر ترکررہی ہیں دلچسپ بات ہے کہ یہ لوگ زیادہ دولت کے دباؤ کا شکار اور عدم تحفظ کا شکار محسوس کرتے ہیں ‘انسانیت کو بدامنی کی آگ میں جھونک کر یہ لوگ دنیا میں” محفوظ“مقامات تلاش کرنے میں زندگی گنوادیتے ہیں -میرے جیسے کم علم کے لیے انکشاف تھا کہ نائن الیون کے بعد ”نیوورلڈ آڈر“کے نئے ورژن کا اہم ترین کھلاڑی ایرک پرنس(بلیک واٹرزکا بانی)چند سال قبل اپنے ملک امریکا کو غیرمحفوظ سمجھتے ہوئے بلیک واٹرزبیچ کر متحدہ عرب امارات کی مستقل رہائشی پرمٹ حاصل کرکے ابوظہبی منتقل ہوچکا ہے جہاں اس نے ”ری فلیکس ریسپانس“نامی کمپنی ”عرب بہار “کے آغازسے محض چند ماہ قبل شروع کی (سمجھدار سمجھ رہے ہیں)بلیک واٹرزنائن الیون سے پہلے ایک چھوٹی سی کمپنی تھی جسے مفاد پرست ٹولے کی ملی بھگت سے کھربوں ڈالر ویلیو کی کمپنی بنادیا گیا اور پھر ”عرب بہار“کی نئی ”بہار“سے لطف اندوزہونے کے لیے امارات کے شیخوں نے پرنس کو اپنے کندھے پیش کردیئے -پاکستان کے غالبا دوسرے امیرترین بزنس مین کی بہت بڑی سرمایہ کاری مصرمیں ہے جس کی درجنوں کمپنیاں پاکستانیوں کو نچوڑکر سرمایہ مصربجھوادیتے ہیں -یہ انکشاف بندہ ناچیزکی موجودگی میں غالبا دوہزار نومیں ہیلری کلنٹن نے لاہور کے گورنرہاؤس میں پاکستان کے ٹاپ ٹین بزنس ٹائیکونزسے میٹنگ کے دوران کیا تھا جب انہوں نے موصوف کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری تو مصرمیں ہے ہم آپ کے ملک میں سرمایہ کاری کیوں کریں؟ اسی طرح موجودہ اور سابق وزراء اعظم کے بارے میں یہ باتیں عام ہیں کہ ان کی اصل سرمایہ کاری دوسرے ممالک میں ہے جبکہ دووزراء اعظم نوازشریف اور بے نظیربھٹو کے بچے بیرون ممالک مقیم ہیں ہاں کبھی کبھار پاکستان کے ”دورے“پر آتے ہیں ‘ان کا مسلہ بھی کالے دھن کے ساتھ ساتھ محفوظ مقامات کی تلاش ہے-یہ وہ طبقات ہیں جو کبھی اپنے ملکوں کو محفوظ بنانے کی کوشش نہیں کرتے اس میں ترقی یافتہ‘ترقی پذیریا غیرترقی یافتہ ممالک کی کوئی تفریق نہیں بلکہ اس ”مقام“پر آکر رنگ‘نسل‘زبان حتی کہ مذہب کی تفریق ختم ہوجاتی ہے اور یہی ایک کڑی ہے جو انہیں ایک جان ایک جسم بناتی ہے-یہ طے کررہے ہیں کہ دنیا کو کیسے چلانا ہے‘آپ اور میں کیا کھائیں گے‘کون سا پانی پئیں گے‘ہمارے بچوں کے دوھ کا برانڈکونسا ہوگا‘حتی ہماری زندگیوں کا ہرفیصلہ یہ ”معاشی درندے“کرتے ہیں -عنقریب دنیا میں ایک اور ”انقلاب“آرہا ہے جس میں خوراک اور پانی کا مکمل کنٹرول ”معاشی دہشت گردوں“کے ہاتھوں میں ہوگا -یہ دیوانے کی بڑنہیں بلکہ حقیقت ہے جس کو گوگل پر سرچ کیا جاسکتا ہے تجرباتی طور پرخوراک کے میدان میں چند افریقی ممالک کی کرپٹ حکومتوں کے ذریعے ایسے معاہدے کیئے گئے ہیں جن کے تحت کسان اپنے اناج سے بیج حاصل نہیں کرسکتا بلکہ اسے بیج بین القوامی معاشی درندوں سے خریدنے کا پابند کیا گیا ہے(ایک خاص مدت کا منصوبہ جس میں خوراک کا مکمل کنٹرول چند کارپویشنزکے ہاتھ میں چلے جائے گا) اسی طرح پانی پر ایک تجرباتی سکیم جنوبی امریکا کے ایک چھوٹے سے غریب ملک بولیویامیں چند سال پہلے آزمائی جاچکی ہے جس کے ذریعے ایک کمپنی کے ذریعے پورے ملک کے پانی کے ذخائر‘دریا‘چشمے‘ندی‘نالے حتی کہ بارش کے پانی کے حقوق خرید لیے گئے تھے بارش کے پانی کو جمع کرنا بھی قابل دست اندازی پولیس جرم قراردیاگیا چند ماہ میں بولیویا اس بدترین”دہشت گردی“کے خلاف سٹرکوں پر آگئے تو اس ”تجربے“کو ختم کردیا گیا-امریکا میں زمین کی دوقیمتیں ہوتی ہیں عام طور پر ایک قدرتی وسائل (منرل رائٹس)کے حقوق کے ساتھ اور دوسری ان کے بغیر‘عام طور پر امریکی کسانوں کے فارم قدرتی وسائل کے حقوق کے بغیرہیں کیونکہ ان حقوق کے ساتھ اور حقوق کے بغیرکی قیمتوں میں ایک بہت بڑا فرق ہوتا ہے-کئی کارپویشنزہیں جن کے پاس کئی کئی لاکھ ایکٹرزکے قدرتی وسائل کے حقوق ہوتے ہیں آپ کو علم بھی نہیں ہوتا کہ آپ نے جو گھر یا فارم خریدا ہے اس کی زمین کے قدرتی وسائل کے حقوق کس کمپنی کے پاس ہیں کیونکہ یہ کمپنیاں ایسے حقوق کو دوسری کمپنیوں یا افراد کو فروخت کرتی رہتی ہیں -اس قانون کے تحت قدرتی وسائل کے حقوق رکھنے والی کمپنی کسی بھی وقت آپ کے گھر یا فارم پر قبضہ کرکے آپ کو بے گھر کرسکتی ہے-مشرف کے دور کے دوانتہائی متنازع قوانین ”سردخانے“میں محفوظ پڑے ہیں جنہیں بوقت ”ضرورت“کام میں لایا جاسکتا ہے کیونکہ ابھی تک کسی پارلیمنٹ یا عدالت نے انہیں منسوح نہیں کیا ان میں ایک قانون کاپوریٹ فارمنگ کا ہے جس کے تحت لاکھوں ایکٹر اراضی ”برادر عرب“ممالک کو دینے کے معاہدے ہیں جبکہ دوسرا قانون امریکا کے قانون کی طرزپر زمین کے قبضہ اور قدرتی وسائل کے حقوق کے بارے میں ہے (وفاقی حکومت کے تحت ایک قانون پہلے سے موجود ہے کہ ریاست آپ کی زمین کے ”منرل رائٹس“کی مالک ہے)اس قانون کے تحت پاکستان میں اسی طرزکے ایک قانون کا دھندلا سا خاکہ بنا کراسے قانون کی شکل دے کر محفوظ کردیا گیا تھا یعنی ریاست اپنے اس حق کو پرائیوٹائز کرسکتی ہے-بات انسان کی سائنسی ترقی سے شروع ہوکر معاشی درندگی پر آگئی ہے تو اگر غور کریں تو ان کا آپس میں بڑا مضبوط اور گہرا رشتہ ہے -ہماری خون پسینے کی کمائی سے یہ چند گرام وزن کی پلاسٹک‘شیشے اور مختلف دھاتوں سے بنی ایک ڈیوائس کئی سو گنا منافع کماکرہمیں تھما دیتے ہیں‘یوٹیوب پر کئی ویڈیوزموجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی بڑی موبائل فون کمپنیوں کے فونزکے فیچرزوالے ”نان برانڈڈ“موبائل فون ان کے مقابلے میں کئی سو گنا سستے ہیں دنیا کے سب مہنگے موبائل فون کمپنی کی ایک ڈیوائس جس کی قیمت سات سو ڈالر کے قریب ہے اس کی فرسٹ کلاس کاپی محض ایک سو دس ڈالر میں دستیاب ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کاپی میں اصل ڈیوائس سے زیادہ فیچرزہیں-گاڑی کو ہی لے لیں چند ٹن لوہا‘ربڑ‘پلاسٹک ‘شیشے اور دیگر دھاتوں کی اصل قیمت کیا ہوگی؟محض دو تین لاکھ پاکستانی روپے جبکہ مارکیٹ میں اسے ایک ملین یا اس سے بھی زیادہ میں فروخت کیا جاتا ہے-پراپراٹی کی قیمتوں کی حقیقت سے واقفان حال بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ محض بلبلہ ہے ‘آپ کچھ بھی خرید لیں اصل فائدہ انہی مٹھی بھر خاندانوں کو پہنچتا ہے دنیا بھر میں کہیں براہ راست تو کہیں کسی تیسری پارٹی کے ذریعے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :