آج عشق رسولﷺکے دعویدار تو بہت ملتے ہیں مگر بعثت کے ابتدائی سالوں سے لے کر فتح مکہ تک جانثاری کی لازوال داستانیں رقم کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے کہاں سے لائیں وہ بلال رضی اللہ وتعالی عنہ کہ ہرستم پر ”احد الااحد“کی صدا ہی بلند ہوتی تھی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے والدین حضرت سیدنا سمیعہ رضی اللہ عنہ والد حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کو اسلام کے پہلے شہدا تھے‘انہوں نے جانیں دیدیں مگر اپنے اس عہد سے نہیں پھرے جو نبی رحمت ﷺ کے ساتھ باندھا اور خود حضرت عمار بن یاسرﷺ کی شہادت جس کے بارے میں آپ کی واضح اور بخاری اور مسلم سمیت کتب احادیث کی متعددمتفقہ حدیث ہے کہ مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کے موقع پر باقی اصحاب ایک‘ ایک پتھر اٹھاکرلارہے تھے جبکہ عمارﷺدو ‘دو پتھر اٹھا کر لارہے تھے تو نبی کریم ﷺنے پیار سے ان کی داڑھی اور کرتے سے مٹی جھاڑتے ہوئے غمگین ہوکر فرمایا ”اے عمار افسوس کہ تمہیں باغی گروہ قتل کرئے گا عمار تو انہیں اللہ اور جنت کی جانب بلا رہا ہوگا اور مخالفین دوزح کی جانب بلائیں گے“ اور جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ جنگ صفین کے دوران تقریبا93سال کی عمر مبارک میں خلیفہ راشد حضرت علی علیہ اسلام کی جانب سے میدان میں آئے تو حضرت معاویہ کے لشکر سے کئی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ میدان چھوڑکرچلے گئے تھے اپنی شہادت تک وہ اہل بیت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے-اسی طرح احد کے میدان میں دیکھتے ہیں کہ جانثاران آقائے دوجہاں ﷺنے اپنے جسموں کی ڈھال بنادی تاکہ مشرکین مکہ کے تیر اور نیزے آپ ﷺ تک نہ پہنچیں حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے معاملے کو آئندہ کسی مضمون کے لیے چھوڑ کر موضوع کی جانب آتے ہیں یعنی اسلام کا مشرکین مکہ کے ساتھ پہلا معرکہ جو بدر کے میدان میں برپا ہوا یہ انقلاب نبویﷺکا ٹرنگ پوائنٹ تھا17رمضان المبارک 2ہجری حضور اکرم ﷺبے سروسامانی کے عالم میں 313نفوس قدسیہ کو لے کر میدان میں اترے تمام روسائے قریش شریک فوج جن کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے اصحاب رضوان اللہ اجمعین سے فرمایا کہ ”مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہاری طرف پھینک دئیے ہیں “ ان کے مقابل حضور اکرم ﷺ کے جاں نثاروں کی کل جماعت تین سو تیرہ نفوس قدسیہ پر مشتمل تھی اوربے سروسامانی کا یہ عالم کہ ” ان کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں ، آٹھ شمشیریں تھیں“ جبکہ قریش کو بدر کے مقام کے قریب معلوم ہوا کہ ابوسفیان کا قافلہ خطرے کی زد سے باہر نکل گیا ہے اور اب اندیشے کی کوئی بات نہیں، لیکن یہ موہوم خطرہ تو محض ایک بہانہ تھا ان کا مقصد اسلامی نظام کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا تھا لہذا انہوں نے بدر کے میدان میں ڈیرے ڈال لیے 17رمضان 2ہجری کو نماز ِ فجر سے فارغ ہونے کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے عددی اعتبار سے اپنے اس مختصر مگر قوتِ ایمانی اور بے پناہ جذبہء جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار تاریخی لشکر کی صف بندی کی اور اپنے صدر مقام میں دشمن کا انتظار کرنے لگے۔
(جاری ہے)
اس معرکے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ جب دونوں فوجیں میدانِ جنگ میں صف آراء ہو گئیں تو اللہ کے رسولﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں دست ِ دعا بلند کرکے والہانہ جذب اور انہماک سے عرض کیا” یا اللہ اگرآج یہ مٹھی بھر جماعت مٹ گئی تو پھر قیامت تک تیری عبودیت اختیار کرنے والا اس روئے زمین پر کوئی نہیں رہے گا“اس ایک جملے میں بہت سے نکات مضمر ہیں، اولاً تو یہ کہ عبادت کے معنی حکم ماننے کے ہیں حکم کا ذکر جب بارگاہ ربْ السّموات سے متعلق ہوتا ہے تو حکم ماننے کے معنی ہوتے ہیں یعنی اس کے عطا کردہ قانون کے مطابق زندگی گزاری جائے بدرکے معرکے نے ہمیشہ کے لیے مہرثبت کردی کہ مومن جب میدانِ جنگ کا رخ کرتا ہے تو اس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں ،غالب آنے کے یا شہید ہو جانے کے حضور ﷺ کی یہ دعا مبنی بر حقیقت تھی کیونکہ حضورﷺ آخری نبی تھے اور آپ ﷺ کی عمر بھر کی دعوت و تبلیغ کا ما حصل یہی313 نفوس تھے اگر وہ اس وقت ختم ہو جاتے تو پھر قیامت تک ایسی جماعت پیدا نہ ہو سکتی تھی۔
اس معرکے کی اہمیت کا یہ عالم تھا کہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں ان میں ہمیں ایک عظیم حقیقت کی جھلک دکھا ئی دیتی ہے قرآن مجید نے نوعِ انسانی کی ہیئت اجتماعیہ میں ایک عظیم انقلاب یہ بھی برپا کیا کہ اس نے قومیت کا مدار، وطن، نسل، رنگ ، زبان وغیرہ کے اشتراک کے بجائے دین کااشتراک قرار دیا۔ اسی معیار کی رو سے دنیا بھر کے مسلم ایک قوم کے افراد قرار پاتے ہیں اور تمام غیر مسلم ان کے بالمقابل دوسری قوم کے افراد بدر کے میدان میں یہ ”دو قومی نظریہ “ ایسی محسوس اور مرئی شکل میں سامنے آجاتا ہے کہ اس کی صداقت میں کسی قسم کا ابہام یا التباس نہیں رہتا اس میدان میں دونوں طرف جو افراد ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں ان کا وطن ایک ہے ، نسل ایک ہے، زبان ایک ہے حتیٰ کہ حسب و نسب کے لحاظ سے بھی وہ ایک ہیں، لیکن اس اشتراک کے باوجود وہ ایسے گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، جن میں کسی قسم کا اشتراک نہیں اس تفریق و تقسیم کی بنیاد کیا ہے؟ کفر اور اسلام یہی وہ معیار تفریق تھا جس کی بناء پر ایک طرف حضرت ابوبکررضی اللہ وتعالی عنہ تھے تو دوسری طرف مقابلے میں ان کا بیٹا، ادھر حضرت حذیفہ رضی اللہ تھے تو صف مخالف میں ان کا باپ عتبہ، ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ادھر آپ کا ماموں اور تو اورادھر خود سرور عالمﷺ تھے تو سامنے کی صف میں آپ کے چچا عباس اور داماد ابو العاص یہی تھی وہ تقسیم و تفریق جس کی بناء پر حبشہ کا رہنے والا اپنوں میں سے تھا، لیکن حقیقی چچا غیروں میں سے ، روم کا صہیب یگانہ تھا لیکن حقیقی بیٹا بیگانہ گویاغزوہ بدردو قومی نظریئے کاعملی مظاہرہ تھا اور اسی سے وہ دو قومی نظریہ جس کا آغاز سلسلہ نزول وحی کی ابتداء ، عہد حضرت نوح علیہ اسلام سے ہو چکا تھا، ایک زندہ حقیقت بن کر سامنے آرہا تھا جنگ کا آغازعربوں کے قاعدے کے مطابق فرداً، فرداً مقابلہ سے ہوا سپہ سالار اعظمﷺ لمحہ لمحہ کی حالت کا جائزہ لے رہے تھے آپ جھکے مٹھی بھر کنکر اٹھائے اور دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا”اب حملہ کرو انہیں شکست ہوگی“مشرکین مکہ کا لشکر اس ناقابل تسخیر ایمانی چٹان سے ٹکرایا اور اس طرح بکھر گیا جس طرح سمندرکی بے تاب مگر مجبور لہریں ساحل سمندر کی چٹانوں سے ٹکرا کر پارہ پارہ ہو جاتی ہیں وہ رکے، رک کر پلٹے اور پھر بھاگ کھڑے ہوئے۔
بدر کی جنگ ختم ہو چکی تھی مسلمانوں نے ” جاء الحق وز ھق الباطل ، انّ الباطل کان زھْوقا“ کا نعرہ فتح بلند کیا اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے کفار کے71 آدمی جہنم واصل ہوئے جن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا سب سے بڑا دشمن او ر اس امت کا ”فرعون“ ابوجہل بھی تھا اور اتنے ہی قیدی بنالئے گئے مسلمانوں کے شہداء کی تعداد14 تھی۔ قرآن کی سورة الانفال غزوہ بدر کے بارے میں نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو اس جنگ میں تائیدایزدی اور فرشتوں کے ذریعے استعانت و نصرت کی خبر دی گئی جزیرة العرب کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کفارمکہ کو شکست کا سامنا ہوا قریش مکہ کا مدینہ کی نوزائیدہ مملکت سے شکست کھانا معمولی بات نہیں تھی اس کے نتائج پورے عرب پر گردونواح کی ریاستوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے حقیقت یہ ہے کہ بدر میں ظلمت کی نور کے ساتھ کفر کی ایمان کے ساتھ باطل کی حق کے ساتھ اور جاہلیت کی اسلام کے ساتھ لڑائی ہوئی اورحق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بدر میں دو گروہوں کے درمیان جنگ ہوئی اور قلیل گروہ کثیر پر غالب آگیا۔
دنیا کی جنگی تاریخ میں ہونے والے فیصلہ کن معرکوں میں سے غزوہ بدر کی طرح کا کوئی فیصلہ کن معرکہ تاریخ کے صفحات کو معلوم نہیں جس میں صحیح عقیدے کو فاسد عقیدے پر فتح حاصل ہوئی ہو معلوم ہوا کہ فتح حاصل کرنے والوں کے لئے پہلا اور آخری ہتھیار ”عقیدہ“ ہی ہے بدر کی فتح عقیدے کی فتح ہے یہ فتح کیسے ہوئی؟ اصل میں اسلام و ایمان نے قلوب و عقول کو ایک حال سے دوسرے حال میں بدل دیا تھا اور رسول اللہﷺ کی آپ کے اصحاب کے دلوں میں سچی محبت اور اطاعت تھی جس نے طاقت کے توازن کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا-حضور اکرمﷺ مکہ میں جس نظام کے قیام کی دعوت دیتے تھے، اس سے قریش نے سمجھ لیا تھا کہ اگر یہ نظام (مکہ چھوڑکر) ملک کے کسی بھی حصے میں قائم ہو گیا تو اس کے نتائج میں اس قدر کشش اور جاذبیت ہوگی کہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف کھنچتے چلے جائیں گے اور اس طرح قریش کی زندگی کا سارا نظام تہہ وبالا ہوجائے گا ان کی زندگی کا کاروبار غلاموں کے سرپر چلتا تھا اسلامی نظام میں آقا اور غلام کی تمیز ہی نہیں رہتی تھی اس لئے ظاہر ہے کہ اس نظام کے قائم ہو جانے کے بعد ان کے غلام اور لونڈیاں ان کے پاس نہیں رہ سکتے تھے، قریش کعبہ کے متولی تھے اور اس مذہبی پیشوائیت کی بناء پر تمام قبائل کے نزدیک واجب التکریم تھے۔
اسلامی نظام میں مذہبی پیشوائیت اور ذاتی تولیت کعبہ کا سلسلہ ہی ختم ہو جاتا اسی احترام کی وجہ سے قریش کی تجارت بھی محفوظ تھی جس کی وجہ سے ان کے کاروبار کو بڑا فروغ حاصل تھا نسلی اعتبار سے قریش سب سے بڑی امتیازی حیثیت کے مالک تھے اسلامی نظام میں نسلی تفوق اور نسبی امتیازباقی نہیں رہتا یہ وجوہات تھیں کی جن کی بناء پر قریش اسے برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے کہ ملک کے کسی حصے میں بھی یہ اسلام قائم ہو جائے چنانچہ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ مسلمانوں کا تعاقب کیاجائے اور جب تک ان کی تحریک کا استیصال نہ کردیا جائے چین سے نہ بیٹھا جائے مگر نبی کریمﷺ کی قیادت میں جانثاران نے ایسی ایسی داستانیں رقم کیں کہ ابد تک اس کی مثال نہیں مل سکتی-آج عشق دعویداروں کو خود بھی نبی کریمﷺ کے جانثاران کی سیرت مبارکہ کو پڑھنا چاہیے اور ریاست مدینہ کی دعویدار تحریک انصاف کی حکومت کو بھی چاہیے کہ نبی کریم ﷺکے جانثاران اور خلفاء راشدین رضوان اللہ وتعالی عنہ کی سیرت کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے امت مسلہ کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ وہ سیرت سرکار دوعالمﷺ ا‘سیرت اہل بیت ور آپ ﷺ کے جانثاران کی سیرت مبارکہ سے روشناس کروایا جائے جسے آج امت بھول چکی ہے اس بھولے ہوئے سبق کو دہرانے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی شاید ماضی قریب میں پہلے کبھی نہیں تھی-