بھٹو کو پھانسی کیوں ہوئی

جمعہ 2 اپریل 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 چار اپریل1979 سے چار اپریل2021 یہ کم و بیش بیالیس سال کا سفر ہے، اس دوران منظر بھی بدل گئے اور حالات بھی، مگر بھٹو دور کی تلخ یادیں نہیں مٹ سکیں، تلخی ایسی تھی کہ چار اپریل1979 کی شام قصور میں اس قبرستان پر چراغاں کیا گیا جہاں نواب محمد احمد خان مدفون تھے، انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا، قاتلوں کی پھانسی پر مقتول کی قبر پر چراغاں کیا گیا ہو، یہ تھا اس وقت تلخی کا ماحول، اور دوسری جانب کا منظر یہ تھا کہ تلخی ایسی کہ بے نظیر بھٹو اور بھٹو کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو آخری دیدار تک نہیں کرنے دیا گیا، بھٹو دور میں ڈاکٹر نذیر احمد، خواجہ محمد رفیق، عبدالصمد اچکزئی جیسے سیاسی کارکن شہید ہوئے اور قاتل گم رہے، گورنر ہاؤس پنجاب، اغواء کاروں کی پناہ گاہ تھا، غواء شدہ طالبات وہاں سے برآمد ہوئی تھیں، داعی حق میا ں طفیل محمد جیسے فرشہ صفت انسان کی داڑھی تھانے میں کھینچی گئی، سب کو علم ہے کہ حکم کس کا تھا؟ کسی بھی انسان کی غیر فطری موت تکلیف دہ بھی ہے اور عبرت بھی، بھٹو کی پھانسی کا سفر10نومبر1974 کو شروع ہوا جب نواب محمد احمد خان لاہور میں شادمان کالونی کے شاہ جمال چوک میں قتل کر دیے گئے، نواب ذادہ احمد رضا قصوری کہتے ہیں کہ اصل میں ہدف وہ تھے، اس قتل کی ایف آئی آر تھانہ اچھرہ میں درج کی گئی، اچھرہ وہی جگہ جہاں بھٹو کے لیے اس وقت نرم گوشہ پیدا ہو جب وہ مہمان کے طور پر مولانا سے ملاقات کے لیے آئے، اس وقت بھی ماحول میں بہت تلخی تھی، مولانا کا حکم تھا، میرے مہمان کے ساتھ کوئی ذیادتی نہیں ہونی چاہیے، بس پھر کیا تھا؟ دنیا نے اطاعت امیر کا بے مثال منظر دیکھا، مگر اس کا مطلب ہر گز ہر گز یہ نہیں تھا کہ مولانا سب کچھ فراموش کرگئے، نہیں ایسا ہو بھی سکتا تھا، بھٹو مہمان تھے اور مولانا میزبان، مولانا کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ انہوں نے کبھی کسی کو غصے کی حالت میں میں جواب نہیں دیا، وہ بہت کم بولتے تھے مگر جب بھی بولے، دنیا کو سوچنے پر مجبور کردیا، نواب محمد احمد خان قتل کیس کی تفتیش کے لیے سب سے پہلے جسٹس شفیع الرحمن کی سربراہی میں ٹربیونل بنا، یہ1975 کی بات ہے اور بھٹو بر سراقتدار تھے، ٹربیونل نے اپنی رپورٹ مرتب کی اور داخل دفتر کردی، اس کیس میں سب سے خطرناک بات اور پہلو یہی تھا، اب مقتول پارٹی کسی اچھے وقت کا انتظار کرنے لگی، بھٹو حکومت ختم ہوئی تو نواب احمد رضا قصوری قالین کے نیچے دفن اس کیس کو باہر لے آئے،24 جولائی1977 کو ایف ایس ایف کے انسپیکٹر ارشد اقبال گرفتار ہوئے، ان کے بعد رانا افتخار کی گرفتاری ہوئی، پھر صوفی غلام مصطفی گرفتار کیے گئے ان کے بعد مسعود محمود اور میاں عباس گرفتار ہوئے،3 ستمبر1977 کو بھٹو گرفتار کرلیے گئے، ہائی کورٹ کے جج جسٹس صمدانی نے ان کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا، پیپلزپارٹی کی رہنماء ریحانہ سرور اور رانا شوکت محمود نے ضمانتی مچلکے پیش کیے،10 اکتوبر1977 کو دوبارہ گرفتار کر لیے گئے، اس کے بعد وہ پھانسی کے بعد ہی جیل سے باہر آئے، اس کیس میں ایک جانب شریف الدین پیرذادہ اور دوسری جانب یحیی بختیار تھے، دونوں کی معاونت کے لیے ملک کے پایے کے وکلاء کی ٹیم تھی، دوست محمد اعوان، بیرسٹر انور، اعجاز بٹالوی جیسے نام، اس کیس میں عدلیہ کے رو برو پیش ہوئے، جسٹس مشتاق حسین، جسٹس افتاب حسین، جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس گل باز خان، جسٹس ایم ایچ قریشی پر مشتمل بنچ نے طویل سماعت کی اور فیصلہ سنایا، پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دی، ضیاء الحق کے ساتھ کے ایم عارف لکھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی بھٹو کی رہائی کے لیے سنجیدہ ہی نہیں تھی، پیرذاہ، کوثر نیازی، جتوئی، کھر جیسے رہنماء سیاسی لحاظ سے وہ جوبن نہ دکھا سکے جو ان کے توقع تھی، کے ایم عارف ورکنگ ود ضیاء میں لکھتے ہیں، پیپلزپارٹی اگر ملک میں دباؤ بڑھا دیتی تو بھٹو کی رہائی ممکن ہوجاتی، پیپلزپارٹی نے ملک کے اندر کام کرنے کی بجائے عالمی رہنماؤں سے رابطوں اور ان کی کوششوں پر انحصار کیے رکھا، بھٹو کیس میں سب سے بڑی کمزوی یہ رہی کہ اسے قتل کے مقدمہ کی طرح لڑا ہی نہیں گیا، وکلاء صفائی کی غیر ضروری طوالت نے کیس میں بھٹو کے دفاع کا موقع ضائع کیا ، بھٹو صاحب کے وکلاء میں سی کسی کے پاس بھی فوجداری مقدمے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، استغاثہ کی جانب سے اعجاز بٹالوی پائے کے وکیل تھے، ایک موقع ایسا بھی آیا کہ بیگم بھٹو نے اپنے وکلاء کی معاونت کے لیے سرگودھا کے ایک وکیل سید احسان قادر کی خدمات حاصل کیں، انہیں فوجداری مقدمات میں قانون پر دسترس تھی، مگر انہیں بھٹو کے سینئر وکلاء یحیی بختیار اور دوست اعوان نے جرح کے وقت ستعمال ہی نہ کیا، بھٹو کی جانب سے مقدمے کی کارروائی کا بائی کاٹ کردینا ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے دفاع کا موقع ہی ضائع کردیا، وعدہ معاف گواہوں کے بیان پر جرح بھی نہیں کی، یوں یہ سارا مقدمہ یک طرفہ ہوگیا، اب پیپلزپارٹی جو کچھ بھی کہتی رہے، یہ اس کا سیاسی حق اور حکمت عملی تو ہوسکتی ہے قتل کے مقدمے میں سنجیدہ پیروی نہ دکھا کر پیپلزپارٹی نے بھٹو کو کھو دیا، یہ واقعات اور حقائق بھٹو کے مقدمے سے جڑے ہوئے تاریخی حقائق ہیں انہیں مسخ نہیں کیا جاسکتا، پارٹی کی سب سے بڑی غلطی اور غلط فہمی تھی کہ بھٹو صاحب کو کوئی پھانسی نہیں دے سکتا، یہی خوش فہمی بھٹو کو تختہ دار تک لے گئی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :