یونہی بے دھیانی میں

جمعہ 2 جولائی 2021

Misbah Chaudhry

مصباح چوہدری

بہت سے کام ہم بنا سوچے سمجھے کر جاتے ہیں جن میں سے ایک ہم لڑکیوں کا سرِراہ ڈوپٹہ ٹھیک کرنا ہے. پتہ نہیں یہ آنچل اسی وقت کیوں ڈھلکتا ہے جب سامنے سے کوئی خوبرو نوجوان آرہا ہو. دیکھنے والا ایسے دیکھتاہے کہ جیسےدکان والا اپنے سامان کی نمائش کر رہا ہواور خریدار خریدنے سے پہلے جائزہ لے کہ مال مکمل تو ہے.خیر ڈوپٹے کو ایک طرف رکھیں تو آجکل مختلف قسم کے برقعے مارکیٹ میں دستیاب ہیں ان میں سےکچھ ایسے ہیں کہ پہننے والی کے جسمانی خدوخال کی آسانی سے جانچ پڑتال ہو سکتی ہے.

ان برقعوں کی اوٹ سے جھانکتے جسم کے ابھار اپنے ہونے کا پتہ دیتے ہیں اور اس نام نہاد پردے سے جڑا آنچل اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ چھپانے والے اعضاء تک اسکی رسائی ہی نہیں پاتی.

(جاری ہے)

چلیں ہمیں کیا ہم کچھ وہ باتیں کر لیتے ہیں جو برقعے اور ڈوپٹے سے آگے کی ہیں. شادی شدہ عورتوں کی باتیں جو زندگی کے کوئی چالیس پینتالیس سال گزار کر بچوں کی پیدائش سے فارغ اب انکی تعلیم و تربیت میں اتنی مصروف ہوتی ہیں کہ انکو اپنے پہننے اوڑھنے کا بھی ہوش نہیں رہتا.

قمیض کی قید سے باہر کی طرف ڈھلکتا پیٹ اور ابھرے ہوئے کولہے جن کو مزید نمایاں کرتی ہیں انکی قمیضیں جو اس طرح سے سلائی کی جاتیں ہیں دیکھنے والا ششدر رہ جائے اور سونے پہ سہاگہ ہر قید سے آذاد انکی ہلکورے کھاتی پستانیں جو پیٹ کے ساتھ لگ رہی ہوتیں اور ڈوپٹہ اس طرح سے اوڑھتی ہیں کے گلے سے آگے جیسے کوئی علاقہ غیر ہو لہذا داخلہ ممنوع ہے ایسے میں سامنے سے آنے والا جی بھر کے اچھلتی چھاتیوں کا ڈانس انجوائے کر سکتا ہے.

ان سب سے ہٹ کے اگر دیکھا جائے تو چلنے کا انداز, ہم کبھی اپنی بچیوں کو سکھا ہی نہیں پاتے کہ بیٹا چلتے ہوئے ڈوپٹہ اسطرح سے لپیٹا جائے کے ابھار واضح نا ہوں اور اس طرح چلا جائے کہ جسم کم سے کم ہلے ورنہ یوں بھی ہوتا ہے کہ رکنے کے بعد بھی آفٹر شاکس کی وجہ سے اعضائے مخصوصہ کسی مست ہوئے شرابی کی طرح جھول رہے ہوتے ہیں. اب آتے ہیں مرد حضرات کی طرف نہ جانے انکو کونسی خارش ہے جو سامنے آتی عورت دیکھ کر دونوں ٹانگوں کے بیچ ہونے لگتی ہے.

چلتے چلتے یونہی کھجانہ اور پھر پاس سے گزرتی عورت کو کہنی مار کر اسکی ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر یا کہیں چٹکی کاٹ کر پتہ نہیں یہ کونسی خواہش کی تسکین کرتے ہیں.عادات کے ساتھ اگر انکے لباس کی بات کی جائے تو دورِ حاضر میں ٹراوزرز کی ایسی ورائٹی دستیاب ہے جنہیں پہن کر یہ تقریباً ننگے چلتے ہیں. جیسے ہازری کے ٹراوزرز وہ جسم کے ساتھ یوں لگے ہوتے کہ سامنے سے آنے والا بندہ بندی خدا نخواستہ نظر اٹھا لے تو سارا دن نظریں جھکاتا پھرے کہ کیا کیا دیکھ لیا یا پھر دوسری واکنگ کٹس جو کچھ اسی طرح کی ہوتیں ہیں اور سے یہ نونہال جنکو انڈر وئیر پہننے کی ترغیب نہیں دی جاتی چلتے ہوئے سب کچھ یوں ہلا کہ دکھا رہے ہوتے ہیں کہ جیسے کسی کو انکی مردانہ طاقت پہ شک ہو.

اور تو اور شلوار قمیض پہنے جب کوئی جناب زمین پہ پاوں بھار بیٹھتا ہے تو نہیں دیکھتا کہ اسکی شلوار کا کھچاو چھپانے والے حصوں کی مصدقہ تصاویر سامنے والوں کو پوری لائن اور لینتھ ساتھ دکھا رہاہوتا ہے مگر جناب یوں شان سے بیٹھتے ہیں کہ جیسے پنڈ کا چوہدری پنچایت میں بیٹھا ہو. اور اگر کسی مرد کو عورتوں کی محافل میں بیٹھنا نصیب ہو جائے تو اٹھتے ہوئے نیفے سے پکڑ کے شلوار یوں گھماتے ہیں کہ جیسے سامنے والے کو جتلا رہے ہوں کہ یہ آپکے ایک اعشارے پہ اتر بھی سکتی ہے.

یہ اور اس طرح کی بہت ساری حرکات و سکنات ہماری روز مرہ زندگی سے جڑی ہیں.یہ عام باتیں ہیں جنسے ہم سب کا روز واسطہ پڑتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ ہم تھوڑی سی احتیاط کر لیں. کیونکہ ہم سب کے گھر میں ماں باپ بہن بھائی ہیں بچے ہیں. ہم نہیں جانتے کہ اس لذتِ بے نیازی سے انکے معصوم زہن پہ کیا اثر پڑے گا. تانکہ اپنا اور دوسروں کا ایمان محفوظ رکھ سکیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :