'ایس او پیز'

پیر 15 جون 2020

Mohammad Ashar Saeed

محمد اشعر سعید

اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ پاکستان جیسی باشعور اور سمجھدار قوم خدا نے روئے ارض پر نہ پہلے پیدا کی نہ قیامت تک ایسی سمجدار اور احتیاط کرنے والی قوم پیدا ہونے کا امکان ہے۔ جو ہم نے کیا ہے اور کر دکھایا یے دنیا حیران ہے۔شروع شروع میں جب کرونا وائرس چین سے شروع ہوا تو ہرعقل و شعور رکھنے والے نے تسلیم کرلیا تھا کہ چونکہ چینی بہن بھائی حرام حلال میں تمیز کیے بغیر ہر چیز کھا جاتے ہیں اس وجہ سے اس بیماری نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔


الحمد للہ کورونا ووہان میں جب تک تھا اس کی وجہ حرام کھانے تھے۔ لیکن جیسے ہی اس جان لیوا بیماری کی آمد دوسرے غیر مسلم ممالک سے مسلم ممالک میں ہوئی تو ہم لوگوں نے اسے حرام کھانے کی بجائے اسے اللہ کی ایک آزمائش قرار دے دیا۔

(جاری ہے)

ہمارا نظریہ یکسر تبدیل ہوکر رہ گیا۔ اب وطن عزیز کے ہونہار سپوتوں نے الزمات کے تیروں کا رخ زائرین اور تبلیغی جماعت کے لوگوں کی طرف کر دیا۔

قوم کے سامنے کرونا کی حقیقت تب کھل کے عیاں ہوئی جب پتا چلا کے کرونا وائرس جان لیوا بیماری ہے ہی نہیں یہ تو بس ایک فلو کی مانند ہے جس سے بالکل بھی گھبرانا نہیں ہے۔
پاکستان میں کورونا کی آمد کے بعد نیم حکیم خطرہ جان کی ایک بڑی تعداد نے اس با شعور قوم کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔ جدھر ساری دنیا اس وائرس کی ویکسین بنانے میں مصروف تھی وہیں پاکستانی دانشواروں نے ایک عدد پیاز اور مختلف بے نامی جڑی بوٹیوں سے اس بیماری کے علاج کو تسلی بخش قرار دے دیا۔

اس کے بعد بلا ناغہ مخصوص اوقات کار میں مجاہدین اسلام نے گھروں کی چھتوں سے آذانیں  دے کر روٹھے رب کو منانا شروع کر دیا۔یہ سلسلہ جاری تھا کہ اتنے میں ایک اور انکشاف ہوا۔۔۔ کورونا جعلی ہے۔۔
اتنے میں حکومتی ایوانوں سے ایس او پیز کی گونج سنائی دی۔ سب سے پہلے علماء اکرام نے قوم کی قیادت کرتے ہوئے مساجد کو ایس او پیز کے تحت کھولنے کا مطالبہ کیا۔

حکومت وقت نے لاک ڈاون، جزوی لاک ڈاون اور اس کے بعد سمارٹ لاک ڈاون متعارف کروایا۔ تمام بازار اور شاپنگ مالز عدالت عظمی کے اسرار پر ایس او پیز کے تحت کھولنے کی مشروت اجازت دے دی۔ افسوس صد افسوس پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح سے اعلی ترین دماغ رکھنے والے تحقیق کاروں نے حکومتی ایس او پیز کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی۔ نہ بازاروں میں کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اپنائی گئی اور نہ ہی مساجد میں سماجی فاصلے کا خیال رکھا گیا۔

گھروں میں چوری چھپے شادی بیاہ کی تقریبات منعقد کی جانے لگی۔ شادی ہال والوں نے یہ سب دیکھا تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور حکومت کو ایس او پیز کے ساتھ فنکشنز کروانے کی ڈیمانڈ کر دی۔
اب صورتحال یہ ہے ایس او پیز نامی شے نہ مساجد میں اور نہ ہی بازاروں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس کے خاطر خواہ نتائج اس دانشوار قوم کے سامنے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب مزید گنجائش نہیں رہی۔

ڈاکٹرز اور حکومتی عہدادار چیخ چیخ کر ایس او پیز پر عمل درامد کرنے کی اپیل کر رہیں ہیں۔ خیر ہمیں کیا یہ وائرس تو ایک جھوٹ ہے۔ تو بلا کیوں ایس او پیز پر عمل کیا جائے۔
ایس او پیز کا جتنا خیال گزشتہ عید پر کیا گیا تھا اس سے بڑھ کر اس عید پر بھی کیا جائے گا۔ ہمیں تو ابھی منڈیوں کا رخ کرنا ہے اور اس کے بعد عید ملن پارٹیوں کا بھی تو انعقاد کرنا ہے مگر  مکمل طور پر ایس او پیز کی دھجیاں بکھرتے ہوئے۔
ہینڈ سم وزیر اعظم بھی ان ارسطوں کو ایس او پیز کا بھاشن دے دے کر تقریبا تھک چکا ہے اور آخر کار اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ کرونا ایک عام سا فلو نہیں ہے یہ در حقیقت ایک جان لیوا بیماری ہے۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :