اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ہے؟۔قسط نمبر3

جمعہ 26 مارچ 2021

Mohammad Burhan Ul Haq Jalali

محمد برہان الحق جلالی

”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے، اور عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں ہیں۔ اور سب سے اوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو گے اور اس کے حال پر چھوڑے رہو گے تب بھی ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی پس عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو۔


1۔ بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب الوصاة بالنساء، 5: 1987، رقم: 4890
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الرضاع، باب الوصیة بالنساء، 2: 1091، رقم: 1468
3۔ ابن ابی شیبہ، المصنف، 4: 197
4 بیہقی، السنن الکبریٰ، 7: 295، رقم: 14499
اسلام نے عورت کو ملکیت اور جائیداد کا حق دیا جو کسی اور مذہب نے نہیں دیا
اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا کیا۔

(جاری ہے)

وہ نہ صرف خود کماسکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔
 ارشاد ربانی ہے:
لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ۔
”مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔“القرآن، النساء، 4: 32
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
اذا طلقہا مریضا ورثتہ ما کانت فی العدة ولا یرثہا۔


”اگر شوہر نے اپنی بیماری کی حالت میں بیوی کو طلاق دے دی تو بیوی دوران عدت اس کی وارث ہوگی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہو گا۔“
1۔ عبدالرزاق، المصنف، 7: 64، رقم: 12201
2۔ ابن ابی شیبہ، المصنف، 4: 171
3۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، 7: 363، رقم: 14908
طلاق مغلظہ کے بارے میں قاضی شریح بیان کرتے ہیں کہ عروة البارقی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوکر میرے پاس آئے اور اس شخص کے بارے میں بیان کیا جو اپنی بیوی کو حالت مرض میں تین طلاقیں دے دے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیوی دوران عدت اس کی وارث ہوگی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہوگا۔


1۔ ابن حزم، المحلی، 10: 219، 228
2۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، 8: 97
اسلام نے عورت کو عزت اور رازداری کا حق دے کر اسے اعلی مقام سے فائز کیا۔
معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت و عصمت کی حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں ہی مضمر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے خواتین کو رازداری کا حق عطا فرمایا اور دیگر افراد معاشرے کو اس حق کے احترام کا پابند کیا۔

قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ”اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک (اس امر کی) اجازت نہ لے لو اور اہلِ خانہ پر سلام کہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان باتوں سے نصیحت حاصل کروo اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ان میں داخل نہ ہو، جب تک تمہیں (اندر جانے کی) اجازت نہ ملے اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔

یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہےo“
القرآن، النور، 24: 27، 28
خود حضور نبی اکرم ﷺکا یہیعمل مبارک تھا کہ جب آپﷺ کسی کے ہاں جاتے تو باہر سے السلام علیکم فرماتے، تاکہ صاحبِ خانہ کو معلوم ہو جائے اور وہ آپ کو اندر آنے کی اجازت دے دیں۔ اگر پہلی بار کوئی جواب نہ ملتا تو دوسری مرتبہ السلام علیکم کہتے۔

اگر اب بھی کوئی جواب نہ ملتا تو تیسری مرتبہ پھر یہی کرتے اور اس کے بعد بھی جواب نہ ملنے پر واپس تشریف لے جاتے۔
آپﷺ ایک مرتبہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ حسبِ معمول السلام علیکم کہا۔ سعد نے جواب میں آہستہ سے وعلیکم السلام کہا جو آپ سن نہ سکے۔ اسی طرح تینوں بار ہوا۔ آخر جب آپﷺ یہ خیال کرکے واپس جانے لگے کہ غالباً گھر میں کوئی نہیں تو حضرت سعدرضی اللہ عنہ دوڑ کر آئے اور آپﷺکو ساتھ لے گئے اور عرض کیا:
یا رسول اللہ! إنی کنت أسمع تسلیمک و أرد علیک ردا خفیا لتکثر علینا من السلام۔

۔
”حضور ﷺمیں نے جواب تو دیا تھا لیکن آہستہ سے، میں یہ چاہتا تھا کہ آپ زیادہ سے زیادہ بار ہمارے لئے دُعا کریں (کیونکہ السلام علیکم بھی سلامتی کی دُعا ہے)۔“
1۔ ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب کم مرہ یسلم، 4: 347، رقم: 5185
2۔ احمد بن حنبل، المسند، 3: 421
3۔ طبرانی، المعجم الکبیر، 18: 253، رقم: 902
4۔ بیہقی، شعب الایمان، 6: 439، رقم: 8808
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے مجھ سے فرمایا:
إذا استاذن احدکم ثلاثا فلم یوذن لہ فلیرجع۔
”جب تم میں سے کوئی شخص (کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے) تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ واپس چلا آئے۔“
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الاسئذان، باب التسلیم، 5: 2305، رقم: 5891
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الأداب، باب الإستئذان، 3: 1694، رقم: 2153
3 بیہقی، السنن، 8: 339، رقم: 39

احمد بن حنبل، المسند، 4: 398
5 ابن حبان، الصحیح، 13: 122، رقم: 5806
6 ابویعلیٰ، المسند، 2: 269، رقم: 981
آپﷺنے فرمایا کہ اگر سلام کے جواب میں صاحبِ خانہ مکان کے اندر سے نام وغیرہ پوچھے تو فوراً اپنا نام بتانا چاہیے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ﷺکے پاس گیا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اندر سے پوچھا: کون ہے؟ میں نے عرض کیا: میں ہوں۔

اس پر آپﷺ نے ناگواری سے فرمایا: ”میں ہوں، میں ہوں“ اور باہر تشریف لے آئے، گویا آپﷺ نے محض ”میں ہوں“ جواب دینے کو ناپسند فرمایا۔
بخاری، الصحیح، کتاب الإستئذان، باب إزا قال من ذا، 5: 2306، رقم: 5896
بخاری، الصحیح، کتاب الإستئذان، باب من أجل البصر، 5: 2304، رقم: 5888
کسی کے گھر میں اجازت لے کر داخل ہونے کے اس عام حکم کے بعد فرمایا کہ تم کسی کے گھر سے کوئی چیز طلب کرنا چاہو تو تمہارا فرض ہے کہ پردے کے پیچھے سے سوال کرو تاکہ ایک دوسرے کا سامنا نہ کرنا پڑے جو دونوں کے لئے اخلاقی لحاظ سے اچھا ہے۔

کسی کے گھر نہ جھانکو یہ ساری عزت صنف نازک کو دین اسلام نے ہی دی ہے یہ سب مقام دین اسلام کی ہی بدولت ہے۔
 ارشاد ربانی ہے:
”اور جب تم عورتوں سے کوئی چیز طلب کرو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگ لو۔ یہ تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔“
القرآن، الاحزاب، 33: 53
عورتوں کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے پردہ کے احکام آئے۔

قرآن حکیم میں خواتین کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی آرائش و زیبائش کو افشا نہ کرنے کی تعلیم دے کر اس پاکیزگیء معاشرت کی بنیاد رکھی گئی جو خواتین کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کو یقینی بناسکتی ہے:
”اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیجئے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمتگار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کمسنی کے باعث ابھی) عورتوں کے پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنیٰ ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) انکا وہ سنگھار معلوم ہوجائے جسے وہ (حکم شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہوکر) فلاح پا جاؤo“
القرآن، النور، 24: 31
جاری ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :