
پاکستان زندہ باد
جمعرات 13 اگست 2020

محمد فیصل
(جاری ہے)
۔۔ یہ تو اس کا وہ عشق تھا جس کا خراج اس نے اپنے پیاروں کے خون سے ادا کیا تھا۔
۔۔۔وہ عشق زادہ تھا اس لیے اپنے زخم بھول گیا۔۔۔۔مٹی کی محبت میں اس نے وہ قرض بھی چکانے شروع کردیئے جو اس پر واجب بھی نہ تھے۔۔۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ جو "شریک سفر" نہ تھے وہ سنورتے جارہے تھے اور اس جیسے دیوانے بکھرتے جارہے تھے۔۔۔۔قائد اعظم کو ایمبولینس نہ ملی تو لیاقت علی خان کسی محلاتی سازش کا شکار ہوکر اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔۔دل میں کسک تو اٹھتی تھی لیکن وہ محب ہی کیا جو اپنے محبوب کا ساتھ چھوڑ دے۔۔۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کر رہیں گے پاکستان کا نعرہ لگانے والے کا گلا اب چیخ چیخ کر پکارتا تھا پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔ 1971 میں سقوط مشرقی پاکستان کے وقت اسے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ پاکستان زندہ باد کہتے ہوئے اس کی آواز مدہم پڑ جاتی ہے۔۔۔ شاید چوٹ دل پر لگی تھی لیکن دل ٹوٹ گیا تو کیا ہوا اور ملک ٹوٹ گیا تو کیا ہوا پاکستان نام کا ایک خطہ تو موجود تھا اور اس کا تو عشق پاکستان تھا۔۔۔۔ وہ اب نئے پاکستان میں تھا ۔۔۔۔اسے ایک دریا کے بعد دوسرے دریا کا سامنا تھا۔۔۔اسے ایک پل لگتا کہ سب بدل جائے گا اور کبھی لگتا تھا کہ جیسے سب کچھ رک گیا ہے۔۔۔۔اس کے خوابوں کی سرزمین میں ظلم بچے جن رہا تھا اور انصاف بانجھ ہوگیا تھا۔۔۔لوگ آتے تھے اس سے کھیلتے تھے اور چلے جاتے تھے۔۔۔۔ہر گزرتے سال اس ہونٹوں سے نکلنے والی پاکستان زندہ باد کی صدا مدہم ہوتی چلی جارہی تھی۔۔۔۔پاکستان کی طرح اب وہ بھی بوڑھا ہوگیا تھا۔۔۔۔ وہ اب نہ اپنے خواب شمار کرتا تھا اور نہ ہی ان کے عذاب۔۔۔۔ لیکن اپنی نحیف آواز میں پاکستان زندہ باد کی صدا بلنند کرنے کی کوشش ضرور کرتا تھا۔۔۔۔وہ کراچی شہر کی گلیوں میں اپنے ناتواں جسم کے ساتھ نجانے کب سے گھوم رہا تھا۔۔۔ یادداشت اب کمزور ہوگئی تھی۔۔۔ وہ اپنے محبوب کے مرقد کی طرف جانا چارہا تھا۔۔۔۔ہر راستہ گندگی سے اٹا تھا۔۔۔سیاسی بہروپیوں کا تماشا جاری تھا۔۔۔اس کو احساس ہوا کہ آج کوئی خاص دن ہے۔۔۔۔آخر کار اسے علم ہو ہی گیا کہ آج 14 اگست ہے۔۔۔۔وہ اپنے کمزور جسم کے ساتھ تیز قدموں قائد کے مزار کی جانب جانے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔۔پھولے سانس کے ساتھ آج اس کو اپنا سفر 14 اگست 1947 کے اس خونی سفر سے بھی زیادہ بھاری لگ رہا تھا۔۔۔وہ لرزتے قدموں مزار کی سیڑھیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔وہ قائد اعظم کے سامنے پوری طاقت کے ساتھ ایک مرتبہ پھر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا چاہتا تھا۔۔اس نے اپنے قدم مزید تیز کردیئے اچانک ہٹو بچو کے شور میں کسی مضبوط ہاتھ والے نے اسے ایک گالی دے کر سیڑھیوں سے نیچے پھینک دیا۔۔۔۔کیونکہ کوئی "شاہی شخصیت"مزار پر حاضری دینے آئی تھی۔۔۔۔وہ بے بسی کی تصویر بنے مزار کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں پاکستان زندہ باد کہنا چاہا تو اس کی آواز حلق میں پھنس گئی۔۔۔۔اور پھر وہ اٹھا،زمین کو ٹھوکر ماری،آسمان کی جانب دیکھا اورمنظر سے غائب ہوگیا۔۔۔۔۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد فیصل کے کالمز
-
غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ کب رکے گا؟
اتوار 13 فروری 2022
-
ہم کون سا نظام چاہتے ہیں ؟
بدھ 26 جنوری 2022
-
بلدیاتی قوانین پر احتجاج کیا رنگ لائے گا؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
رحمت اللعالمین کے ظالم امتی
منگل 7 دسمبر 2021
-
محسن پاکستان
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
عوام کیا چاہتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
''1971تمہارا آخری چانس تھا''
پیر 9 اگست 2021
-
حقیقی تبدیلی کیسے آئے گی
پیر 10 مئی 2021
محمد فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.