
ایک نیا سورج
جمعہ 26 فروری 2021

محمد فیصل
(جاری ہے)
راشٹریہ سیوک سنگھ کے بطن سے جنم لینے والی بھارتیہ جنتا پارٹی آج بھارت کی حکمران جماعت ہے۔ اس جماعت کے نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ بھارت کو سیکولر سے ہندوتوا ریاست میں تبدیل کرنا ان کی منزل ہے۔ مودی کا بھارت کسی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مسلمانوں سے تو خیز اذلی دشمنی ہے ہی لیکن ان کو اب سکھ اور کرسچن بھی ایک نظر نہیں بھاتے ہیں۔ رہ گئے نچلی ذات کے ہندو تو وہ کل بھی اچھوت تھے اور آج بھی اچھوت ہیں۔ مذہبی کارڈ کا استعمال کرکے نریندر مودی بھارت کو جس طرف لے کر جارہا ہے اس سے زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت وہاں کی اقلیتوں کو نہیں بلکہ ہوش مند ہندٶں کو ہے۔ان کو اس وقت ہی سوچ لینا چاہیے تھا جب گجرات کے قسائی کو دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوری ملک کا حاکم نامزد کیا جارہا تھا۔ نفرت انگیز ایجنڈے پر گامزن مودی سرکار لاشعوری طور پر بھارت کو تقسیم در تقسیم کی طرف لے کر جارہی ہے۔بھارت کے لبرل جمہوریت پسند طبقے کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ مودی کی مذہبی جنونیت ان کے ملک کی ایک ارب سے زائد آبادی کے لیے ایک ایسی سلگتی چنگاری ہے جو کسی بھی وقت بھڑک کر پورے نشیمن کو جلاسکتی ہے۔
بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لوگ گائے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ بھارتی مسلمان کسی گائے کو دیکھ کر اپنی نظریں پھیر لیتا ہے کیونکہ اس کا قرب اسے موت کی وادی تک پہنچا سکتا ہے۔ اس گھٹن زدہ بھارتی معاشرے میں کسانوں کی جانب سے چلائی جانے والی تحریک پسے ہوئے طبقات کے لیے امید کی کرن کے طور پر نظر آرہی ہے ۔ مودی سرکار کے زرعی قوانین کے خلاف سڑکوں پر نکلنے والے بھارتی کسانوں کے سرخیل اس وقت بھارتی پنجاب کے سکھ بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہی سکھ ہیں جن کو آج بھی گولڈن ٹیمپل نہیں بھولتا ہے۔ آج ان بھارتی سکھوں کو یاد آرہا ہے کہ تقسیم کے وقت ان کے بڑوں کے کیے گئے فیصلے شاید درست نہیں تھے اور شاید ان کو اب ایسا بھی لگتا ہے کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ آج بھارتی کرکٹر یوراج سنگھ کا والد یوگراج سنگھ جب کہتا ہے کہ یہ ہندو غدار ہیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ بھارتی سکھ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں۔نوجوت سنگھ سدھو کا باغیانہ لہجہ بھی کوئی اور کہانی سنارہا ہے۔بھارتی سکھ 70 برس قبل تو نہرو اورجناح میں فرق نہیں کرسکے لیکن انہوں نے اب یقینی طور پر مودی اور اس کی بی جے پی کو پہنچان لیان ہے۔
بھارت میں کسانوں کی تحریک کو شروع ہوئے 70 روز سے زائد ہوگئے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کی مداخلت کے باوجود یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہاہے۔نریندر مودی نے جس نفرت کے قلعے پر کھڑے ہوکر بھارت کی تقسیم کی بنیاد ڈالی تھی ایسا لگتا ہے کہ کسانوں کی تحریک اس کے "انجام کا آغاز" ہے۔ بھارت کے یوم جمہوریہ پر نئی دلی میں جو کچھ ہوا اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وقت بہت تیزی کے ساتھ مودی کے ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے۔ چانکیہ کا یہ چیلا اپنے جال میں خود پھنستا نظر آرہا ہے۔ دلی کو محاصرے میں لیے ہوئے بھارتی سکھ اس مرتبہ ماسٹرتارا سنگھ بننے کو تیار نظر نہیں آتے ہیں۔ بھارت کے یوم جمہوریہ کو اس مرتبہ سکھوں نے یادگار بنادیا ہے۔26 جنوری کو جمنا کے پانی نے بھی دیکھا ہوگا کہ لال قلعہ آج طویل عرصے بعد اپنی پوری قامت کے ساتھ کھڑا ہے کیونکہ آج اس پر سے کسی نے ترنگا ہٹا کر خالصتان کا پرچم لہرادیا تھا اور وہیں کہیں دور سے گذرتے ہوئے کسی مسلمان نے جب ایک نظر قلعے پر ڈالی ہوگی تو اس کو ایسا لگا ہوگا کہ آج قلعے میں دوبارہ دربار لگا ہے ۔شاید وقت بدلنے والا ہے۔ گائے کا خوف جانے والا ہےاورایک نیا سورج طلوع ہونے والا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد فیصل کے کالمز
-
غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ کب رکے گا؟
اتوار 13 فروری 2022
-
ہم کون سا نظام چاہتے ہیں ؟
بدھ 26 جنوری 2022
-
بلدیاتی قوانین پر احتجاج کیا رنگ لائے گا؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
رحمت اللعالمین کے ظالم امتی
منگل 7 دسمبر 2021
-
محسن پاکستان
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
عوام کیا چاہتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
''1971تمہارا آخری چانس تھا''
پیر 9 اگست 2021
-
حقیقی تبدیلی کیسے آئے گی
پیر 10 مئی 2021
محمد فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.