پاکستان میں الیکشن کمیشن اور آرٹیکلز باسٹھ وتریسٹھ

پیر 14 ستمبر 2020

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

پاکستان میں الیکشن کمیشن کا کام ملک میں ہرخالی سیٹ پرنوے دن کے اندر الیکشن کروانا ہوتا ہے۔ ہر خالی سیٹ کیلئے تاریخ اور وقت کا تعین کر نا مجوزہ نامزد امیدواروں کے کاغذات کی آئین پاکستان کے آرٹیکلز باسٹھ وتریسٹھ کے تحت جانچ پڑتال کرناہوتا ہے دراصل آرٹیکلز باسٹھ اور تریسٹھ کردار وچال چلن اورایمان داری کا چیک ہے ۔ اس قانون کے تحت جو شخص بھی الیکشن میں حصہ لینا چاہتا ہے اس امیدوارکے لئے لازم ہے کہ آرٹیکلز کی ان شقوں پر پورا ترے۔


 ۱۔قانون کے آرٹیکل باسٹھ کے تحت مجلس شورہ (پارلیمنٹ ) کا ممبر بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ :
ا ۔ وہ پاکستان کا شہر ی ہو۔
 ب۔ اگروہ قومی اسمبلی کا ممبر بننا چاہتا ہے اس کے لئے اس کی عمر پچیس سال سے کم نہ ہو۔

(جاری ہے)

اس کانام ووٹر لسٹ میں درج ہو۔
i ۔جنرل سیٹ اور غیر مسلم سیٹ کے لئے پورے پاکستان میں کسی مقام پر امیدوار کا نام ووٹر لسٹ میں درج ہو۔


ii ۔اگر کوئی عورت عورتوں کے لئے مخصوص سیٹ کے لئے جس صوبہ کے لئے نامزد گی کرتی ہے اس صوبہ میں کسی مقام پر اس کانام
 ووٹر لسٹ میں درج ہو۔
 ج۔ سینٹ کا ممبر بننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی عمر تیس سال سے کم نہ ہو ۔اس کانام صوبہ ،وفاق کا علاقہ یا وفاق کے زیریں
 (قبائلی)علاقے یہاں سے ممبر بننا چاہتا ہے اس علاقے کی ووٹر لسٹ میں درج ہو۔


 د۔ امید واراچھے کردار کا حامل ہو اور اس کی اسلام کے ساتھ اچھی وابستگی ہو۔
 ر۔امید وار کے لئے لازم ہے کہ وہ اسلام کے متعلق کافی معلومات رکھتاہو۔ اس نے کسی اسلامی ادارے میں ایک عرصہ کے لئے تعلیم
 حاصل کی ہو ۔وہ کسی مذہبی کلاس لینے کا اہل ہو۔
 س۔امید وار کے لیے لازم ہے کہ وہ صالح ذ ہن رکھتا ہو ۔ لچا لفنگا نہ ہو ۔ راست باز اور امانت دار ہو۔

ملکی عدالت نے اسے ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے میں سزا یافتہ قرار نہ دیا ہو۔
 ۲۔مندرجہ بالا میں شق (د،ر) کا اطلاق غیر مسلم پر نہیں ہو تا مگر وہ امیدوار بھی اپنے اپنے مذاہب کے پابند ہوں اور صالح ہوں ۔
 ۲۔آئین کی دفعہ تریسٹھ کے تحت :۔
 ا ۔ پاکستان کی مجلس شورہ یعنی پارلی منٹ کا ممبر بننے کے لئے امید وار کے لئے لازم ہے کہ وہ ذہنی مریض نہ ہو اور پاکستان میں کسیعدالت نے اسے ذہنی مریض ثابت نہ کردیاہو ۔


 ب۔امیدوار کے لئے لازم ہے کہ وہ مفلس یا کسمپرسی کی علامت نہ ہو ۔
 ج۔امید وار کی پاکستان کی شہریت ختم کر دی گئی ہو اور اس نے کسی دوسرے ملک ْکی شہریت حاصل کر لی ہو۔اس صورت میں وہ شخص پاکستان کی پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے اہل نہ ہو گا۔
د۔ایسا امید وار جو دوسرا عہدہ ملنے سے پہلے کسی عہدے پر کام کر رہا ہو اور وہ عہدہ اس نے ظاہر کر دیا ہو وہ امیدوار نا اہل نہیں ہوگا۔


 ر۔اگر کوئی امیدوار گورنمنٹ کے کسی ادارے (جو گورنمنٹ کی ملکیت ہو یا حکومت کی حصہ داری ہو) میں قانونی طور پر کام کر ر ہا ہو
وہ نا اہل ہو جائے گا ۔
 س۔اگر کوئی پاکستانی شہری آئین پاکستان ایکٹ 1951(iiof1951)کی شق نمبر 14Bکے تحت پاکستان کا شہری ہو اور وہ آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب ہو جانے کی صورت میں عارضی طور پرپاکستان کی پارلیمنٹ کے لئے نااہل ہو جائے گااور جب وہ آزاد جموں و کشمیر کی پارلیمنٹ سے مستعفی ہوجائے گا تو وہ اہل ہو گا! بشرطیکہ اسے غلط کام کرنے کی وجہ سے نکالانہ گیا ہو۔


 ص۔وہ امیدوار بھی نا اہل ہو جائے گا جسے کسی مجاز عدالت نے پاکستان کی آزادی و سلامتی اور سیکورٹی کے خلاف بات کر نے اس کی تشہیر کرنے ملکی راز دشمن کو دینے یا پہچانے کے جرم میں مجرم قرار دے دیا ہو۔
 ط۔وہ امیدوار بھی نا اہل ہوجائے گاجو کسی کو حبس بے جامیں رکھنے یا برے کام کرنے میں مجرم قرار دیا گیا ہو اور وہ دو سال کی مدت کے لئے جسے پانچ سال تک بڑھایا کیا جا سکتا ہے کے لئے نا اہل ہو گا ۔


 ل۔ وہ امیدوار بھی نا اہل ہو جائے گا جسے کسی وفاقی و صوبائی یا نیم سرکاری ملازمت سے غلط انداز میں کام کر نے کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہواور اس کی مدت پانچ سال سے کم ہو۔
م۔ وہ امید وار بھی نا اہل ہو جائے گا جسے کسی وفاقی و صوبائی یا کسی کارپوریشن سے غلط انداز میں کام کرنے کی وجہ سے ریٹائرمنٹ کی مدت سے قبل جبری طور پر نکال دیا گیا ہویا جبری ریٹائرڈ کر دیا ہو جبکہ اسکی مدت تین سال سے کم ہو۔


مندجہ بالا آرٹیکل کے مطابق امیدوار کو پکا صوم و صلوة کا پابند ہو نا چاہیے اس نے کبھی جھوٹ نہ بولاہو زبان کا پکا ہو لوگوں میں نیک اور صالح مشہور ہو اس کی زندگی میں کوئی داغ نہ ہو۔
پاکستان کی اسمبلیزاور سینٹ کے ارکان ان قوانین پر کس حد تک پورا اتر تے ہیں یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کے تینوں ایوان ( سینٹ ۔۱۰۴،قومی اسمبلی ۳۴۲،چاروں صوبائیاسمبلیوں اور گلگت بلتستان اسمبلی۷۷۷)کی تعداد۱۲۲۳میں مشکل سے دس فیصد ممبران ان قوانین پر پورا اترتے ہیں باقی نوے فیصد ممبران اسمبلیوں تک کیسے پہنچتے ہیں اس کے بارے میں الیکشن کمیشن کسی کو جواب دہ ہے ؟ جب ان ممبران کے کاغذات کی جانچ پڑتال ہوتی ہے الیکشن کمیشن کی آنکھوں پر کس چیز کی پٹی باندھی جاتی ہے : رشوت کی سیاسی دباؤکی ،پولیس گردی کی، بدمعاشی کی( الیکشن ارکان کو یا انکے بیوی بچوں یا کسی قریبی رشتہ دار کو اغواہ کرنے کی دھمکی کی) کہ وہ اان ممبران کے کاغذات پاس کر دیتے ہیں ۔

کیا یہ سب کام کرنے والے نہایت ہی شریف لوگ ہیں کیونکہ اسمبلی میں پہنچ کر یہ سب لوگ نہایت ہی مہذب بن جاتے ہیں ۔یہی لوگ اسمبلی میں پہنچ کر قانون سازی سے دور رہتے ہیں کیونکہ ا ن کو نہ قانون اور نہ ہی ملکی سلامتی کی فکر ہوتی ہے یہ لوگ تو صرف اپنی بدمعاشی اور عیاشی کے کئے اسمبلی میں آتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :