طارق محمود ملک ایک معلم اور صحافی تھے

ہفتہ 19 دسمبر 2020

Mohammad Irfan Chandio

محمد عرفان چانڈیو

صحافت ایک خدمت ہے اور اس خدمت کو  انجام دینے والا صحافی کہلاتا ہے  صحافت ریاست کا ایک ستون ہے اور اس ستون کو اپنی جگہ پر قائم رکھنے والوں کو صحافی کہتے ہیں کسی چیز کے مطعلق خبر تلاش کرنا اس کی پڑتال کرنا اور پھر اس کو لوگوں تک پہنچانا، اپنے اردگرد کے ماحول سے لوگوں کو باخبر رکھنا وغیرہ۔ صحافی کا ہتھیار اس کا قلم ہوتا ہے ویسے قلم چلانا  دیکھنے میں آسان ترین کام لگتا ہے مگر قلم چلانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے قلم چلاتے ہوے ادب کو ملح خاص رکھا جاتا ہے .
کسی بھی صحافی کو صحافت میں اپنا نام بناتے ہوئے عرصہ دارز لگ جاتا ہے انتہائی محنت اور جوش و ہمت سے ہی ایک صحافی اپنے نام کو صحافت کی دنیا میں برقرار رکھ پاتا ہے۔

ایسے ہی ایک صحافی سر طارق محمود ملک جو کے پنچاب کے ایک تحصیل تلہ گنگ سے تعلق رکھتے  تھے اپنی انتھک محنت اور جوش سے صحافت میں اپنا ایک مقام اور نام بنایا مگر 16 دسمبر کی رات وہ کورونا سے جنگ لڑتے ہوئے کورونا سے تو جیت گئے مگر ان کے جسم کے عضو( پھیپڑوں) نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا  انتہائی نرم مزاج ، گفتگو میں نرم شناس اور  سادگی میں زندگی بسر کرنے والے ہم نیوز کے سینیر صحافی اور نمل یونیورسٹی کے پروفسر سر طارق محمود ملک ہم سے جدا ہوگئے طارق صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی ہمشہ اُن کے چہرے پر مسکراہٹ ہی ہوتی تھی وہ ایک خوش شکل انسان تو تھے ہی وہ خوش لباس بھی بہت تھے اور ہمیشہ چاق و چوبند۔

(جاری ہے)

  اُن کی وفات کی خبر جب ملی تو کچھ دیر کے لیے دماغ نے تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا کہ اُستاد محترم اس دنیاء فانی میں اب نہیں رہے۔ کلاس میں اکثر اپنی صحافت کے واقع اور اپنی محنت کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔
 سر طارق محمود ملک جنہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد رولپنڈی کی ایریڈ یونیورسٹی جس کو  پیر مہر علی شاہ یونیورسٹی بھی کہا جاتا ہے وہاں سے "ماس کمیونیکیشن" میں ماسٹرز کی تعلیم حاصل کی . ماس کمیونیکیشن کرنے کے بعد سب سے پہلے جنگ اخبار میں ایک روپوٹر کی خدمات انجام دیں پھر وقتاً فوقتاً  اپنی پرزور محنت سے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے کئی نیوز چینلز میں اپنی خدمات سر انجام دیں جن میں پاکستان کے مشہور نیوز چینلز اے آر وائے، وقت نیوز ،  نیوز-ون، 92 نیوز، سماء نیوز  اور آخر میں ہم نیوز میں اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے طارق محمود ملک صاحب فارن میڈیا کے ساتھ بھی وابسطہ رہے۔

ان کے انتقال کی خبر تمام نیوز چینلز نے نشر کی اور اکثر صحافی حضرات نے ٹویٹر پر بھی اپنے غم کا اظہار رونے والے ایموجیز سے کیا اور حکومت وقت کے کچھ وزراء نے بھی  افسوس کا اظہار کیا مگر یہ افسوس طارق صاحب کی اُس محنت کا اجر نے جو انہوں نے اس مملکت پاکستان کے لیے کی۔ ایک استاد محترم جو کہ طارق محمود ملک صاحب کے قریبی دوست بھی ہیں اُن کے جنازے میں شرکت کرنے کے بعد فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کی جس کو پڑھنے کے بعد مجھے اپنے گائوں کا ایک واقع یاد آیا گائوں کے ایک بزرگ جو کہ محلے میں اپنے میل ملاپ کی وجہ سے کافی مشہور تھے ان کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے سے کسی نے پوچھا کہ بیٹا گھر کے حلات اب ٹھیک ہیں اور تعلیم کیسی جا رہی ہے  تو وہ مسکرا کے بولا چلو شکر ہے  کہ کسی نے بابا کے بعد گھر کے حالات  اور میری تعلیم کا بھی پوچھ  لیا۔


تعزیت سنت ہے تعزیت سے  شاید طارق صاحب کے گھر اور اُن کے بچوں کو صبر اور ہمت ضرور مل جائے گی مگر اُن کا نظامِ  زندگی شاید اب ویسا نہ رہے جیسے طارق محمود ملک صاحب  کی موجودگی میں ہوا کرتا تھا  جیسے کہ صحافی ریاست کے ستون کو سنبھالے ساری زندگی گزار دیتا ہے تو زندگی ختم ہو جانے کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کر جانے کے بعد حکومتِ وقت کا بھی فریضہ بنتا ہے کہ اُن کی وفات کے بعد اُن کے اہل خانہ کا خیال رکھیں  ۔


میری حکومت وقت سے گزارش ہے کہ سر طارق محمود محمدد نے جس طرح قوم و ملت کے جوانوں کو علم سے سرشار کیا اور کورونا کے مشکل ترین دور میں بھی  صحافت کی دنیا میں  بلچچک اپنی خدمات انجام دیتے رہے اُن کے لے کسی پیکچ کا اعلان کریں تاکہ اُن کی اولاد اپنی آنے والے نسلوں کو فخر سے بتا سکیں کہ سر طارق محمود ملک ایک معلم اور صحافی تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :