ماں تیرا بیٹا سرخرو ہوا

جمعہ 4 دسمبر 2020

Mohammad Zakriya

محمد زکریا

تنہائی میں سوچوں کی بھیڑ میں ایک ایسی سوچ نے مجھے لکھنے پر مجبور کر دیا ہوا کچھ یوں کے آج سے کچھ عرصہ قبل مجھے معرکہ بڈھ بیر کے جانباز کی کہانی پڑھنے کا موقع ملا تو میرے دل میں حب الوطنی کا جذبہ سر اٹھا کر بولنے لگا اور مجھے فخر محسوس ہونے لگا کہ میرا تعلق اس ملک سے ہے جہاں کا بچہ بچہ وطن پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ رکھتا ہے آنکھوں میں آنسو اور کانپتے ہوئے ہاتھ سے میں نے لکھنا شروع کیا "کیپٹن اسفند یار بخاری ان چند شہداء میں سے ہیں جنہوں نے آج سے پانچ سال قبل بڈھ بیر کے مقام پر دشمن کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور دشمنوں کو جاتے جاتے ایک پیغام دے گئے کہ ہم اپنے ارضِ پاک پر اٹھنے والی ہر ایک میلی نظر کا جواب بھرپور طریقے سے دے سکتے ہیں۔

(جاری ہے)


میرے مجاہد وفا ابھی تک نہیں ہیں بھولے
کہ خالد میں ترجمان بھی اسفندیار تم ہو
پاکستان کے بہادر سپوت کا جنم 14 اگست 1988 کو اٹک کے شہر میں ہوا ابتدائی تعلیم اے پی ایس اٹک سے حاصل کی اور انٹر فضائیہ کالج اٹک سے کیا۔ ملک پر نثار ہونے کا جذبہ ان کو کیڈٹ کالج حسن ابدال کی طرف لے گیا 2001 سے 2005 کے عرصے میں انہوں نے کیڈٹ کالج حسن ابدال میں اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑ دیے اور ان کو کالج کی طرف سے ونگ کمانڈر کے عہدے سے نوازا گیا ملک پر جان نثار کرنے کے جذبے نے اسفند یار بخاری کو
پی ایم اے کے دروازے پر پہنچا دیا۔


سلام اس ماں کو جس نے اپنا بیٹا ملک پر قربان کردیا اور بڑے فخر سے کہتی ہیں کے اسفندیار بخاری ایک نہایت عمدہ شخصیت کا مالک تھا اللہ تعالی چنتے ہیں کچھ لوگوں کوکچھ لوگ صرف فرض نبھاتے ہیں اور کچھ لوگ فرض نبھانے سے آگے نکل جاتے ہیں اور میرا بیٹا جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فرض نبھانے سے آگے نکل گیا۔اگر آج کے بچے کو واقعی ہیرو کو دیکھنا ہے تو وہ دیکھے کہ وہ کون تھا جو نرسری سے مرتے دم تک ہر چیز میں سرفہرست رہا اور میں رب پروردگار کی شکر گزار ہوں کہ وہ میرا بیٹا اسفندیار ہے۔


شہادتوں کے اجر ملے ہیں جو نور و خوشبو کے سلسلے ہیں
بلندیوں کی یہ فیصلے ہیں یہ آسماں کے معاملے ہیں
2011 میں کوئٹہ میں بیسک انفنٹری کورس بہت اچھے طریقے سے مکمل کیا پر وہاں انہوں نے ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔انہوں نے ایک آلہ بنا کر پاکستان فوج کو دیا جسے بعد میں مزید بہتر بنانے کے لئے واہ فیکٹری بھیج دیا گیا۔

یہ آلہ بتاتا ہے کے دشمن کہاں چھپا ہے اور کتنی دور سے فائرنگ کر رہا ہے اس کے بعد جرات اور بہادری کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہااور پھر 2015 کی صبح بہت سے دہشت گردوں نے بڈھ بیر کیمپ پر حملہ کر دیا جس کا فوری جواب دینے کے لیے اسفندیار بخاری نے اپنے برگیڈئیر سے اجازت چاہی اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے نکل پڑا ۔ دشمن چھپ کر فائرنگ کر رہا تھااسفند یار بخاری نے اپنی گاڑی سے چھلانگ لگائی اور ایک دہشت گرد کو جہنم واصل کیا۔

آٹھ بج کر سات منٹ پر اپنے کمانڈر کو آخری فون کیا اور بتایا کہ تمام دہشت گرد مارے جا چکے ہیں پر اسی وقت اسفندیار بخاری کی نظر ایک دہشت گرد پر پڑی جو ایک کمرے میں چھپنے کی کوشش کر رہا تھا اسی وقت اسفندیار بخاری کی پلاٹون سے ایک حوالدار جانے لگا تو اس وقت اسفندیار بخاری نے کہا تم رہنے دو تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں خود جاتا ہوں اور وہ نکل پڑے ساتھ ہی فائرنگ شروع کر دی اور اس دہشتگرد کو مار گرایا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا دہشت گرد کی بندوق نیچے گرنے سے ایک فائر ہوا جو کہ سیدھا اسفندیار بخاری کے سینے پر جا لگا اور اس طرح اسفندیار بخاری شہادت کے درجے پر فائز ہو گئے۔


"ہماری خاک سے خوشبو وطن کی آئے گی"
"ہمارا خون اس مٹی کے رنگ میں شامل ہے"
اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج ہمارے ملک میں جو امن ہے وہ شہداء کی لازوال قربانیوں اور غازیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :