نیب اور غیر محفوظ بیوروکریسی

پیر 19 جولائی 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

جزا، سزا کی روایت  اتنی ہی پرانی ہے جس قدرانسانی تاریخ،معاشرے میں امن وامان کے قیام اور شہریوں کو تحفظ دینے کیلئے ہر دور میں سخت  قوانین متعارف کرائے جاتے رہے،لیکن کسی بھی دورمیں شہریوں کو دبانا یا ان پر ظلم کرنامقصود نہ ہوتا تھابلکہ سخت قوانین کے ذریعے جرائم کا قبل از وقت سد باب مقصد تھا،آج بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار سزائے موت پر بہت واویلاکرتے دکھائی دیتے ہیں مگر جن ممالک میں عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود سزائے موت کا قانون رائج ہے وہاں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے،ایران اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے،چین میں مجرم سے زیادہ جرم سے نفرت کی جاتی ہے،مگر سزائے موت کا قانون وہاں آج بھی رائج ہے،مگر یہ سزا صرف ملک دشمنوں اوراور کرپٹ  عہدیداروں کو دی جاتی ہے،چین میں 30سال کی مختصرمدت میں 30ارب شہریوں کو خط غربت سے اٹھایا گیاجس کا عالمی سطح پراعتراف کیاگیا،جس کے جواب میں چینی صدر نے کہا”ہم نے اس عرصہ میں 300سے زائد اعلیٰ  حکام کو سزائے موت دی جس کیوجہ سے کرپشن میں کمی آئی اور یہ وسائل ہم نے شہریوں کی بہبود پر خرچ کئے،جس کے نتیجے میں عوام خوشحال ہوئے،مگروہاں احتساب کا عمل کبھی سیاسی نہیں ہواء،ٹھوس شواہد کیساتھ مکمل تحقیقات کے بعد ملزم پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے جسکی وجہ سے وہاں ایسے کرپشن کے مقدمات میں  95فیصد ملزموں کو سزا ہوتی ہے،اہم بات یہ کہ وہاں صرف الزامات کی بنیاد پر گرفتاری نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کو شامل تفتیش کیا جانا خبر ہوتی ہے،کسی بھی ملزم کے متعلق تب تک خبر شائع یا نشرنہیں کی جا سکتی جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے اورعدالت سزا نہ سنا دے،ہمارے ہاں مگر اخباری اطلاعات پرانکوائریاں ہوتی ہیں اور مقدمات بنتے ہیں،جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزم کو مجرم بنادیا جاتاہے۔

(جاری ہے)


ہمارے ہاں بھی دو دہائی قبل کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب کا ادارہ وجود میں آیا،اس ادارہ نے اب تک قومی خزانے سے لوٹی گئی آٹھ سو ارب سے زائدرقوم بد عنوان عناصر سے وصول کی ہے،تاہم اس کے باوجود اس کی اب تک کی مجموعی کارکردگی قابل تعریف نہیں ہے،نیب حکام نے اپنی نا تجربہ کاری اور اندھے اختیارات کی وجہ  سے ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کر رکھی ہے،یہ ادارہ کسی اہم شخصیت پر آج تک ہاتھ ڈال سکا نہ عائد کردہ الزامات کے مطابق لوٹی دولت کی وصولی کر سکا اور نہ کسی کو سزا دلا سکا،انکا سارا نزلہ  اب تک گرا ہے  تو  اعلیٰ سرکاری ملازمین پر یا چھوٹے درجے کے سرکاری عمال پر،وہ سرکاری افسر جو ساری عمر پہلے حصول تعلیم میں مشغول رہے،پھر مقابلے کا امتحان دے کر سیلیکشن حاصل کی،بعدازاں سرکاری اخراجات پرتربیت کے مراحل سے گزرے،اندرون بیرون ملک کورسز کئے اورواپس آکر ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہو گئے،ساری زندگی جنہوں نے نیک نامی کمائی اور آخر عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد یا سروس کے اختتامی سالوں میں نیب کی پکڑ میں آگئے وہ بھی کسی گمنام شکائت کسی اخباری خبر،یا کسی ہاتھی کیخلاف شکائت پر اس کا کچھ نہ بگاڑسکنے پر سرکاری افسر کو نشانہ بنا لیا گیا،نتیجہ یہاں بھی وہی ہے کوئی مہینوں اورکوئی سالوں کے بعد  اعلیٰ عدلیہ سے سرخرو ہواء، نیب کی اس صورتحال کا منطقی نتیجہ تھاخوف و ہراس،سوخوف کی تلوارایسی لٹکی کہ سرکاری مشینری عضو معطل بن کر رہ گئی،افسروں نے کام کرنا،سرکاری امور میں دلچسپی لینا چھوڑ دیا۔


وزیراعظم اورآرمی چیف کو مداخلت کرنا پڑی،مگر حالات نہ بدلے،آخر کار حکومت کونیب اختیارات کم کرنے کیلئے آرڈیننس لانا پڑا جو سیاسی مخالفت کے سبب  قومی اسمبلی سے منظوری نہ ملنے پر کالعدم ہو گیا،مگر حکومت اس حوالے سے مسلسل سرگرم ہے اب وزیر خزانہ نے بھی نیب قوانین میں ترامیم کی تصدیق کی ہے،انکا کہنا ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو بیوروکریسی سے کام لینا ممکن نہ ہو گا اوراگر بیوروکریسی نے کام نہ کیا تو حکومت کیلئے اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا،اس حوالے سے قائم مشترکہ کمیٹی کی طرف سے ترامیم کی منظوری کی بھی انہوں نے تصدیق کی ہے کہ قوانین کا مقصد سرکاری  حکام کو ذاتی ملازم اور شہریوں کو غلام بنانا ہو تو نتیجہ ایسا ہی نکلتا ہے۔


یہ ہے اصل خرابی جو احتساب کے نظام میں موجود ہے جس کی سپریم کورٹ بھی نشاندہی کر چکی ہے مگر آج تک اسے بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی گئی مگراس سسٹم کی وجہ سے بہت سے عزت داروں کی پگڑیاں اچھالی گئیں اور بہت سے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور وفاقی اور صوبائی بیوروکریسی سولی پر لٹکی ہوئی ہے،نیب الزام عائد کرتا ہے ریفرنس بناتا ہے اور گرفتاری عمل میں آجاتی ہے،تحقیق اور تفتیش عزت و ناموس کا جنازہ نکالنے کے بعد کی جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ گورننس کا نظام آج ہچکیاں لے رہا ہے،اچھی کیا کہیں کوئی بری حکومت بھی دکھائی نہیں دیتی۔


ملک کے طول و عرض میں ہونے والے احتساب کے نام پر تماشہ کا جائزہ لیں تو یہ دراصل ایک ننگی تلوار ہے جو ان لوگوںپر براہ راست لٹک رہی ہے جنہوں نے اس ملک کے نظم و نسق کو چلانا،امن و امان قائم رکھنا ہے،حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے،عوام کوآئین و قانون کے مطابق سہولیات فراہم کرنا ہے،لیکن جب اس سرکاری مشینری کی اپنی عزت،ملازمت اور مستقبل ہی دائو پر لگ جائے تو ان سے کار کردگی کی کیا امید باندھی جا سکتی ہے،اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف حکومت آج تک بیوروکریسی کا اعتماد بحال کر پائی ہے نا بیورو کریسی پر ان کا اعتماد پختہ ہواء ہے جس کی وجہ سے بیوروکریسی بھی ڈانواں ڈول ہے اور کوئی بھی افسر اپنے طور پر کوئی فیصلہ لینے سے گریزاں ہے جس کی وجہ سے کاروبار مملکت و سلطنت عملی طور پر ٹھپ پڑا ہے،اب وقت آ گیا ہے کہ نیب قوانین کو ایسا بنایا جائے جو احتساب کرے مگر کسی کی عزت اچھالے نہ بے گناہ پر ہاتھ ڈال سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :