
نیب اور غیر محفوظ بیوروکریسی
پیر 19 جولائی 2021

محسن گورایہ
(جاری ہے)
ہمارے ہاں بھی دو دہائی قبل کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب کا ادارہ وجود میں آیا،اس ادارہ نے اب تک قومی خزانے سے لوٹی گئی آٹھ سو ارب سے زائدرقوم بد عنوان عناصر سے وصول کی ہے،تاہم اس کے باوجود اس کی اب تک کی مجموعی کارکردگی قابل تعریف نہیں ہے،نیب حکام نے اپنی نا تجربہ کاری اور اندھے اختیارات کی وجہ سے ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کر رکھی ہے،یہ ادارہ کسی اہم شخصیت پر آج تک ہاتھ ڈال سکا نہ عائد کردہ الزامات کے مطابق لوٹی دولت کی وصولی کر سکا اور نہ کسی کو سزا دلا سکا،انکا سارا نزلہ اب تک گرا ہے تو اعلیٰ سرکاری ملازمین پر یا چھوٹے درجے کے سرکاری عمال پر،وہ سرکاری افسر جو ساری عمر پہلے حصول تعلیم میں مشغول رہے،پھر مقابلے کا امتحان دے کر سیلیکشن حاصل کی،بعدازاں سرکاری اخراجات پرتربیت کے مراحل سے گزرے،اندرون بیرون ملک کورسز کئے اورواپس آکر ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہو گئے،ساری زندگی جنہوں نے نیک نامی کمائی اور آخر عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد یا سروس کے اختتامی سالوں میں نیب کی پکڑ میں آگئے وہ بھی کسی گمنام شکائت کسی اخباری خبر،یا کسی ہاتھی کیخلاف شکائت پر اس کا کچھ نہ بگاڑسکنے پر سرکاری افسر کو نشانہ بنا لیا گیا،نتیجہ یہاں بھی وہی ہے کوئی مہینوں اورکوئی سالوں کے بعد اعلیٰ عدلیہ سے سرخرو ہواء، نیب کی اس صورتحال کا منطقی نتیجہ تھاخوف و ہراس،سوخوف کی تلوارایسی لٹکی کہ سرکاری مشینری عضو معطل بن کر رہ گئی،افسروں نے کام کرنا،سرکاری امور میں دلچسپی لینا چھوڑ دیا۔
وزیراعظم اورآرمی چیف کو مداخلت کرنا پڑی،مگر حالات نہ بدلے،آخر کار حکومت کونیب اختیارات کم کرنے کیلئے آرڈیننس لانا پڑا جو سیاسی مخالفت کے سبب قومی اسمبلی سے منظوری نہ ملنے پر کالعدم ہو گیا،مگر حکومت اس حوالے سے مسلسل سرگرم ہے اب وزیر خزانہ نے بھی نیب قوانین میں ترامیم کی تصدیق کی ہے،انکا کہنا ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو بیوروکریسی سے کام لینا ممکن نہ ہو گا اوراگر بیوروکریسی نے کام نہ کیا تو حکومت کیلئے اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا،اس حوالے سے قائم مشترکہ کمیٹی کی طرف سے ترامیم کی منظوری کی بھی انہوں نے تصدیق کی ہے کہ قوانین کا مقصد سرکاری حکام کو ذاتی ملازم اور شہریوں کو غلام بنانا ہو تو نتیجہ ایسا ہی نکلتا ہے۔
یہ ہے اصل خرابی جو احتساب کے نظام میں موجود ہے جس کی سپریم کورٹ بھی نشاندہی کر چکی ہے مگر آج تک اسے بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی گئی مگراس سسٹم کی وجہ سے بہت سے عزت داروں کی پگڑیاں اچھالی گئیں اور بہت سے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور وفاقی اور صوبائی بیوروکریسی سولی پر لٹکی ہوئی ہے،نیب الزام عائد کرتا ہے ریفرنس بناتا ہے اور گرفتاری عمل میں آجاتی ہے،تحقیق اور تفتیش عزت و ناموس کا جنازہ نکالنے کے بعد کی جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ گورننس کا نظام آج ہچکیاں لے رہا ہے،اچھی کیا کہیں کوئی بری حکومت بھی دکھائی نہیں دیتی۔
ملک کے طول و عرض میں ہونے والے احتساب کے نام پر تماشہ کا جائزہ لیں تو یہ دراصل ایک ننگی تلوار ہے جو ان لوگوںپر براہ راست لٹک رہی ہے جنہوں نے اس ملک کے نظم و نسق کو چلانا،امن و امان قائم رکھنا ہے،حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے،عوام کوآئین و قانون کے مطابق سہولیات فراہم کرنا ہے،لیکن جب اس سرکاری مشینری کی اپنی عزت،ملازمت اور مستقبل ہی دائو پر لگ جائے تو ان سے کار کردگی کی کیا امید باندھی جا سکتی ہے،اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف حکومت آج تک بیوروکریسی کا اعتماد بحال کر پائی ہے نا بیورو کریسی پر ان کا اعتماد پختہ ہواء ہے جس کی وجہ سے بیوروکریسی بھی ڈانواں ڈول ہے اور کوئی بھی افسر اپنے طور پر کوئی فیصلہ لینے سے گریزاں ہے جس کی وجہ سے کاروبار مملکت و سلطنت عملی طور پر ٹھپ پڑا ہے،اب وقت آ گیا ہے کہ نیب قوانین کو ایسا بنایا جائے جو احتساب کرے مگر کسی کی عزت اچھالے نہ بے گناہ پر ہاتھ ڈال سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محسن گورایہ کے کالمز
-
اعتماد سے عاری اپوزیشن
جمعرات 17 فروری 2022
-
ٹکے ٹوکری سیکرٹیریٹ
منگل 15 فروری 2022
-
مقامی حکومتیں ضروری ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
’’آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘‘
منگل 8 فروری 2022
-
پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
-
چیف سیکرٹری پنجاب ؟
پیر 31 جنوری 2022
-
مقامی حکومتیں اور با اختیار بیوروکریسی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
محسن گورایہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.